Maktaba Wahhabi

467 - 545
بیع سلم کی شرائط 1۔سلم کے جائز ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ خریدار پوری کی پوری قیمت عقد کےوقت ادا کرے، یہ اس لیے ضروری ہے کہ اگر عقدکے وقت خریدار قیمت کی مکمل ادائیگی نہ کرے تو یہ دین کے بدلے میں دین کی بیع کے مترادف ہوگا(بيع الكالي بالكالي) یعنی دونوں طرف سے اُدھار ہوگا جس سے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً منع فرمایا ہے۔ 2۔سلم کے جواز کی بنیادی حکمت بائع کی فوری ضرورت کو پورا کرنا ہے، اگر قیمت اسے مکمل طور پر ادا نہیں کی جاتی تو عقد کا بنیادی مقصد فوت ہو جائے گا۔ 3۔سلم صرف انہی اشیاء میں ہو سکتی ہے جن کی کوالٹی اور مقدار کا پیشگی پورےطور پر تعین ہوسکتا ہو، ایسی اشياء جن کی کوالٹی یا مقدار کا تعین نہ کیا جا سکتا ہو انہیں ”سلم“کے ذریعے نہیں بیچا جا سکتا۔ مثال کے طور پرقیمتی پتھروں کی سلم کی بنیاد پر بیع نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ ان کا ہر ٹکڑا اور فرد عموماً دوسرے سے معیار، سائز یا وزن میں مختلف ہو سکتا ہے اور ان کی بیان کے ذریعے تعین عموماً ممکن نہیں ہوتی۔ ((مَنْ سَلَّفَ فِي تَمْرٍ فَلْيُسْلِفْ ، فِيْ كَيْلٍ مَعْلُومٍ ، وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ))[1] ”جو کھجوروں میں بیع سلف کرے وہ معلوم پیمان اور معلوم وزن میں کرے۔“ 4۔ یہ بھی ضروری ہےکہ جس چیز کی سلم کرنا مقصود ہے اس کی نوعیت اور معیار واضح طور پر متعین کر لیا جائے، جس میں کوئی ایسا ابہام باقی نہ رہے جو بعد میں تنازع کاباعث بن سکتا ہو، اس سلسلے میں تمام ممکنہ تفصیلات واضح طور پر ذکر کر
Flag Counter