Maktaba Wahhabi

312 - 545
پرائز بانڈ کے حق میں پیش کردہ دلائل کا جائزہ حدیث پاک میں وارد ہے: ((كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ الرِّبَا))[1] ”ہر وہ قرض جس سے نفع اُٹھایا جائے وہ سُود ہے۔“ 1۔پرائز بانڈ ہولڈر گورنمنٹ کو قرض دیتا ہےاور اُس قرض پر نفع حاصل کرنا اُس کے لیے حرام ہے۔ 2۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہ کو جو رقم بڑھا کردی وہ پہلے سے طے شدہ نہیں تھی اور نہ قرض خواہ کا مطالبہ اور خواہش تھی وہ تو اس سے بالکل لاعلم تھا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضی سے ایسا کیا جس کی پہلے سے نہ شرح طے تھی اور نہ پہلے سے کسی قسم کا معاہدہ اور یہی حلت و حرمت کے مابین حد فاصل ہے اور شریعت نے اسے احسان سے تعبیر کیا ہے۔ 3۔ پرائز بانڈپر اگر آپ کا انعام نکل آئے اور بینک آپکو نہ دے تو آپ عدالت میں کیس کر سکتے ہیں جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر اُس شخص کو بڑھا کر نہ دیتے تو اُسے کیس کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ 4۔ہم سے قرض لے کر گور نمنٹ اُس رقم کو سُود پر آگے بڑی بینکوں میں رکھوادیتی ہے جس میں سے کچھ سُود انعام کی شکل میں تقسیم کردیا جاتا ہے اور باقی کا سُود گورنمنٹ اپنی ضروریات میں خرچ کرتی ہے۔ 5۔گورنمنٹ تمام بانڈز ہولڈر کی رقم سے فائدہ اُٹھاتی ہے جبکہ اگر واقعی انعام ہی
Flag Counter