Maktaba Wahhabi

472 - 545
(عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى اللّٰه عنها ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى اللّٰه عليه وسلم اشْتَرَى مِنْ يَهُودِيٍّ طَعَامًا إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ، وَارْتَهَنَ مِنْهُ دِرْعًا مِنْ حَدِيدٍ‏)[1] ”کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سےمتعین مدت کے لیے غلہ خریدااور اس کے پاس لوہے کی زرہ (بطور ضمانت) گروی رکھوائی۔“ بیع سلم میں مدت اُدھار کا تعین اگرچہ اس ضمن میں فقہاء کے مابین اختلاف موجود ہے کہ سلم میں مبیع کی ادائیگی کے لیے کم ازکم مدت کیا ہونی چاہیے تاہم سچ یہ ہے کہ شارع علیہ السلام سے اس ضمن میں کوئی بھی حدیث موجود نہیں ہے اس لیے کہ مسئلہ میں اباحت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مدت کے تعین کا انحصار فریقین کی باہمی رضامندی پر ہے باہمی معاہدے میں فریقین جس پر مدت پر راضی ہوں وہ درست اور جائز ہے وہ مدت کم بھی ہو سکتی ہے اور زیادہ بھی البتہ مدت کے تعین کے وقت اس بات کا خیال رکھاجائے کہ مبیع کا تعلق اگر کسی خاص جنس یا خاص بھل سے ہے تو مدت اتنی ہونی چاہیے کہ وہ جنس یا پھل اُس مدت میں پایا جائے مثلاًفریقین مارچ اپریل میں بیع سلم کرتے ہیں اور فروخت کنندہ جون جولائی میں آم دینے کا وعدہ کرتا ہے تو یہ درست ہے لیکن یہ مدت بڑھادی جائے ۔اور فروخت کنندہ دسمبر میں آم دینے کاوعدہ کرے تو یہ سلم درست نہیں کیونکہ ہمارے ہاں سردی کے موسم میں آم موجود نہیں ہوتے اس لیے خریدار نقصان اٹھائے گا اور دھوکا کھائے گا تضیع وقت کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔
Flag Counter