Maktaba Wahhabi

387 - 545
اس میں اس بات کا کوئی تذکرہ نہ تھا کہ وہ اشیاء جو کلائنٹ بینک سے خریدے گا وہ بینک کی ملکیت اور بینک کے قبضے میں کب اور کس طرح آئیں گی؟ صرف رقم دے کر اس پر نفع لیا جاتا تھا، اس میں نہ کسی قسم کا وکالت کا معاہدہ ہوا، نہ بینک کا قبضہ وضمان تھا اور نہ ہی حقیقی خریدو فروخت تھی محض اسلامی نام تھا جو صریحاً غلط تھا۔ موجودہ اسلامی بینکاری کا موازنہ 1۔ جبکہ موجود اسلامی بینکاری میں ان شرائط کا لحاظ رکھا گیا ہے، اس میں وکالت کا معاہدہ(Agency Agreement)ہوتا ہے جس پر کلائنٹ اور بینک دونوں کے دستخط ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں کلائنٹ مطلوبہ سامان کی خریداری کے لیے بینک کا وکیل بن جاتا ہے اور یہ کہ اس وکالت کے معاہدے پر کلائنٹ کے دستخط خریداری سے پہلے ضروری ہوتے ہیں، اگر اس پر دستخط خریداری کے بعد ہوں تو یہ خریداری کلائنٹ کی اپنی ذاتی خریداری سمجھی جاتی ہے، اسلامی بینک اس پر مرابحہ نہیں کر سکتا، پھر جب کلائنٹ مطلوبہ سامان کی خریداری کے لیے ایجاب (Offer to Purchase) کرتا ہے، جب بینک اس آفر کو قبول (Accept) کر لیتا ہے تو مرابحہ کا عقد مکمل ہوتا ہے، اس کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اب اس میں دیکھیں وکالت بھی ہے، ضمان بھی ہے اور پھر ایجاب و قبول کے ذریعے بیع بھی ہے جبکہ 1981ء؁کی اسکیم میں یہ معاہدے ہیں ہی نہیں بلکہ اس کے خلاف کی صراحت ہے جیسا کہ ذکرکردہ حوالے سے واضح ہے۔ 1981ء؁کی اسکیم کا دوسرا فرق دوسرا واضح اور بنیادی فرق یہ ہے کہ اس اسکیم میں رقم کی معینہ مدت میں ادائیگی نہ ہونے پر طے شدہ قیمت پر اضافی رقم لیے جانے کا قانون تھا۔ جبکہ شریعت میں بیع مؤجل کے لئے ایک لازمی شرط یہ ہے کہ عقد کے
Flag Counter