Maktaba Wahhabi

446 - 545
بشکل وعدہ شرائط کی شرعی حیثیت جہاں تک وعدہ عہد، معاہدہ اور عقد کی تعریفات اور ان کے مابین پائے جانے والے فرق کا تعلق ہے ہمیں مکمل اتفاق ہے محترم تقی عثمانی صاحب کی گزشتہ عبارت جو غیر سُودی بینکاری سے ماخوذ ہے ہم اس سے قطعاً اختلاف نہیں رکھتے لیکن شرائط کو وعدے یا معاہدے کا نام دینا بھی قرین انصاف نہیں ہے۔ ٭ جناب ڈاکٹر عمران اشرف عثمانی بن تقی صاحب نے بھی اپنی کتاب ”شرکت و مضاربت“میں 360 پر اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ شرکۃ الملک کا عقد ،اجارے کا عقد اور بیع کا عقد اگر یہ تینوں عقود اپنی الگ الگ حیثیت میں اورمستقل شکل میں ہوں تو جواز میں کوئی اشکال نہیں۔مزید فرماتے ہیں”اگر فریقین ان تینوں عقود کو پہلے ہی سے اکٹھے تیار کر لیں تو یہ صورت حال فقہی لحاظ سےقابل غور ہے اس لیے کہ اس میں ایک عقد دوسرے عقد میں داخل ہو رہا ہے جسے اصطلاحاً (صَفْقَةٍ فِيْ صَفْقَةٍ) کہا جاتا ہے اور یہ ناجائز ہے۔“[1] ٭ محترم تقی عثمانی صاحب اپنی کتاب”اسلامی بینکاری“میں فرماتے ہیں کہ مذکورہ بالاتینوں معاملے بذات خود جائز ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انہیں ایک ہی انتظام میں جمع کرنا جائز ہے، جواب یہ ہے کہ اگر تینوں معاملوں کو اس انداز سے جمع کیا جاتا ہے کہ ان میں سے ہر معاملہ دوسرے کے لیے شرط بن جائے تو شرعاً یہ جائز نہیں ہے،اس لیے کہ اسلام کے قانونی نظام میں یہ طے شدہ اصول ہے کہ ایک معاملے کو دوسرے کے لیےپیشگی شرط نہیں بنایا جا سکتا۔[2]
Flag Counter