Maktaba Wahhabi

85 - 545
4۔قیاس (Analogy): لُغوی معنی: اندازہ کرنے کے ہیں۔ اِصطلاحی مفہوم: جب کسی مسئلے کے بارے میں قرآن وسنت میں صریح حکم نہ پایا جائے تب مجتہد اجتہاد کر کے قرآن و حدیث میں موجود حلت و حرمت کے حکم کی علت تلاش کرتا ہے اور اس کو بنیاد بنا کر پیش آنے والے مسئلے کی حلت و حرمت پر منطبق کرتا ہے جو قیاس کہلاتا ہے یاد رہے کہ اصل مسئلے کا حکم کسی علت پر مبنی ہو اور اس کی علت معلوم ہو، ورنہ قیاس باطل ہے اور اُس کی کچھ شرعی حیثیت نہیں ہے۔ یہ اُصولی بات دینی کتابوں کا مطالعہ کرنے والے ہر قاری کو ذہن نشین ہونی چاہیےکہ کسی مسئلے و معاملے کے متعلق شرعی حکم صرف وہی ہو سکتا ہے جس کا تفصیلی یا اِجمالی ثبوت قرآن و حدیث میں موجود ہو کیونکہ شریعت اسلامی کا حقیقی ماخذ و سر چشمہ صرف قرآن وحدیث ہیں، لہٰذا اصلاً اس بحث کا دائرہ انہی تک محدود رہے گا، تعامل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی دراصل کتاب و سنت پر مبنی ہے لہٰذا کسی مسئلے اور معاملے کو سمجھنے کے لیے اُس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے لیکن جہاں کہیں بشری تقاضے سے اُن کا عمل بھی کتاب وسنت سے منافی نظر آئے تب حجت صرف قرآن وسنت ہی ہونگے ، محدثین کرام کے ہاں حدیث کا جو وسیع مفہوم ہے اس میں آثارصحابہ رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں صحیح اور ضعیف احادیث بھی شامل ہیں اس لیے کسی مسئلہ اور معاملہ کے شرعی جواز و عدم کے متعلق صرف اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہوتا کہ یہ بات کتب حدیث میں موجود ہے یا فقہ و فتاویٰ کی فلاں کتاب میں فلاں فقیہ نے اس کو جائز کہا اور لکھا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قرآن وحدیث کی اُس نص اور دلیل کا ذکر بھی ضروری ہے جس کی بنا پر اُس فقیہ نے ایسا کہا اور لکھا ہے، خود امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے۔ جسے ہدایہ کے مقدمہ
Flag Counter