Maktaba Wahhabi

414 - 545
2۔اگر کاروبار میں نفع کے بجائے نقصان ہو گیا تو نقصان سرمایہ والے کا ہوگا اور عامل کی محنت ضائع گئی لہٰذا مضاربت میں اس طرح کی شرط کرنا کہ نفع و نقصان میں دونوں شریک ہوں گے۔درست نہیں۔ 1۔مثلاً ”الف“نے”ب“کو ایک ہزار روپے دئیے جو سال کے بعد 1400ہو گئے تو ”الف“کو۔/1200روپے اور ”ب“کو/۔200روپے ملیں گے، لیکن اگر سال بعد۔/900روپے رہ جائیں تو یہ۔/900”الف“کے ہونگے”ب“کو کچھ نہ ملے گا یہ نہیں ہو سکتا کہ”الف“ ”ب“ سے نصف نقصان (50) کا مزید مطالبہ کرے۔ 2۔”الف“نے”ب“کو۔/1000روپے مضاربت پر دئیے مگر ابتداء ہی میں ۔/500روپے کا مال چوری ہوگیا۔ باقی ۔/500روپے سے”ب“نے کاروبار شروع کیا جو سال بعد۔/800روپے ہو گیا اب ”ب“یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس ۔/800میں سرمایہ تو صرف ۔/500روپےلگا لہٰذا نصف منافع ۔/150 روپے اسے ملنا چاہیے بلکہ یہ پوری رقم ”الف“ کو مل جائے گی(کیونکہ ابھی بھی اُس کا دوسوروپے کا خسارہ باقی ہے)۔[1] 3۔مضاربہ میں اصل عقد منافع پر ہوتا ہے اگر منافع کا تناسب مجہول ہو تو مضاربہ کا یہ عقد فاسد ہو جائے گا۔[2] 4۔تقسیم نفع کے وقت رب المال کی موجودگی ضروری ہے چنانچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مؤطا میں فرماتے ہیں: " قَالَ مَالَكُ فيِ رَجُلٍ دَفَعَ إلىَ رَجُلٍ مَالاً قِرِاضًا فَعَمِلَ فِيهِ فَرَ بِحَ فأَرَادَ أَنْ يأْخُذَحِصَّتَهُ مِنْ الرِّبِحْ وَصَاحِبُ الْمَالِ غَائِبُ قَالَ
Flag Counter