Maktaba Wahhabi

565 - 545
الْوَجْهِ الذي وَقَفَ عَلَيْهِ."[1] ”انصاری جو کہ امام زفر رحمۃ اللہ علیہ کے اصحاب میں سے ہیں، سے پوچھا گیا کہ جس نے دراہم یا کھانا یا مکیلی یا موزونی شے کو وقف کیا تو کیا یہ جائز ہے؟تو انھوں نے فرمایا: جی ہاں ، جائز ہے، پوچھا گیا: جائز کس طرح ہے؟ تو فرمایا: کہ پہلے وہ دراہم کو مضاربت پردے دیے اور پھر جن پر وقف کیا گیا ہے ان پر صدقہ کردے۔[2] لیکن اس فتوے کو موجودہ تکافل کمپنیوں سے عملی تطبیق نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ کمپنیاں اپنے قائم کردہ وقف سے کسی کو مضاربہ کے طور پر رقم مہیانہیں کرتیں بلکہ اُس وقف فنڈ سے از خود کاروبار کرتی ہیں اور اس کا روباری محنت پر بطور اُجرت اپنی فیس بھی وصول کرتی ہیں لہٰذا مندرجہ بالا فتویٰ تکافل کی موجودہ صورت حال پر منطق نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب کاا ظہار ِبے بسی جناب ڈاکٹر صاحب نے”تکافل کی شرعی حیثیت“کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس کے بارہ میں محترم جناب مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کے ریمارکس ہیں کہ”یہ (انتہائی) قابل قدر تصنیف ہے“اس ناچیز کو بھی محترم مفتی صاحب کے تجزئیے سے ہرگز اختلاف نہیں ہے۔یہ ایک اچھی کوشش ہے اللہ قبول فرمائے۔میں سمجھتا ہوں کہ کتاب کے بالکل آخر میں عام طور پر محقق یا مؤلف اپنی پوری تحریر کا خلاصہ،نچوڑ یا لب لباب پیش کرتا ہے جس سے قاری کا ذہن کتاب کے اُس ثمرے کو پالیتا ہے جو اُس کی تحریر کی غایت ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب! بالکل ہارے ہوئے جرنیل کی طرح ابحاث کی جنگ سے جان چھوڑاتے ہوئے اور سفید پرچم لہراتے ہوئے یوں گویا ہوئے:
Flag Counter