Maktaba Wahhabi

390 - 545
نمبر5 میں”جبری صدقہ“ کے عنوان کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔ 1981ء؁ کی اسکیم کا تیسرا فرق ایک فرق یہ بھی تھا کہ اس اسکیم میں حکومت کی طرف سے اسکیم کےتحت چلنے والے بینکوں کے کسی قسم کے چیک اینڈبیلنس کا نظام قائم نہیں کیا گیا تھا جو ان کی عملی غلطیوں کی طرف نشاندہی کرتا۔ موجودہ اسلامی بینکاری جبکہ موجودہ اسلامی بینکاری میں ان اسلامی بینکوں کے شرعی معاملات کے عملی نفاذ کی نگرانی کے لیے بورڈ یا شریعہ ایڈوائزر ہوتا ہے، جو ان بینکوں کی عملی غلطیوں کو بھی پکڑتا ہے اور وقتاً فوقتاً اصلاح کرتا رہتا ہے۔ اس تمام تفصیل کے خلاصے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ 1981ء؁کی اسکیم اورموجودہ اسلامی بینکاری میں بہت فرق ہے، ان حالات میں یہ کہنا کہ مروجہ مرابحہ کا ربح اور اجارہ کی اُجرت 1981ء؁کی بلا سُودی اسکیم کے مارک اَپ سے سرمو مختلف نہیں“کتنی حقیقت پر مبنی ہے، اس کا فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں۔[1] اِعتراض نمبر5: سُودی بینکوں کی طرح اسلامی بینک بھی نان رسک ہیں۔ جواب: دیگر اعتراضات کی طرح یہ اعتراض بھی لاعلمی پر مبنی ہے، بینک چاہے مرابحہ ڈیل کر رہا ہو یا اجارہ جب تک وہ چیز بینک کے قبضے اور ملکیت میں رہتی ہے تب تک اُس کا مکمل رسک (ضمان) اسلامی بینک کے ذمہ ہوتا ہے حتی کہ اگر بینک کسی
Flag Counter