Maktaba Wahhabi

560 - 545
مذکورہ حدیث سے ماخوذ فوائد 1۔وقف کردہ چیز عمدہ نوعیت کی ہو۔ 2۔ اصل ملکیت واقف کے پاس رہے گی اس کی پیداوار اور منفعت صدقہ ہوگی۔ 3۔اُسے نہ بیچا جاسکتاہے اور نہ ہی خریدا جاسکتا ہے۔ 4۔نہ ورثے میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ 5۔نہ اُس کو ہبہ کیا جاسکتا ہے۔ 6۔واقف(وقف کنندہ) خود بھی اُس کی منفعت سے مستفید ہوسکتا ہے اگرچاہے۔ 7۔وقف کنندہ کے لیے جنت میں اس سے بہتر کی بشارت ہے۔ وقف میں اصل کا برقرار رہنا مذکورہ حدیث سے یہ بات بھی واضح ہے کہ واقف کی اصل وقف کردہ شئی برقراررہے گی اُس کی منفعت تقسیم ہوگی اس اُصول کے تحت تکافل کی بنیادیں انتہائی کمزور ہو جاتی ہیں کیونکہ تکافل کی پوری عمارت نقود کی شکل میں حاصل شدہ اقساط پر قائم ہے اگر ہم منقولہ اور غیر منقولہ دونوں کے وقف کو تسلیم کر لیں تب بھی نقود میں یہ اشکال باقی رہتا ہے کہ نقود سے منفعت ان کے وجود کو ختم کئے بغیر ممکن نہیں جبکہ وقف میں اصل کا برقرار رہنا ضروری ہے جس کی دلیل نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا درج ذیل فرمان ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مذکور ہے۔ "إنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أصْلَها، وتَصَدَّقْتَ بها."[1] ”اگر تو چاہے تو اس کی اصل روک لے اور اُس کی پیدا وار کو صدقہ کردے۔“ اور روپے پیسے اور درہم و دینار کو خرچ کئے بغیر اُن سے استفادہ ممکن نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ درہم و دینار ہوں یا روپیہ پیسہ انہیں کرائے پر بھی نہیں دیا جا سکتا جس طرح زمین یا مکان وغیرہ
Flag Counter