Maktaba Wahhabi

132 - 545
سُود (سُود مرکب/سُود در سُود) حرام ہے مفرد سُود حرام نہیں ہے، یہ سوچ راہ حق سے فرار کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے حالانکہ اللہ جل جلالہ نے بالصراحت یہ بات اجاگرکرائی ہے کہ ﴿وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ اللہ جل جلالہ نے تجارت کو حلال اور سُود کو حرام قراردیا ہے اور یہ مطلق سُود ہے اُس آیت کریمہ میں مطلق سُود کو حرام قراردیا اور اس آیت میں سُود در سُود کو اللہ جل جلالہ نے حرام قراردیا ہے جس کے نتیجے میں سُود کی ہر شکل حرام قرار پاتی ہے۔ چاہےوہ سُود مفرد ہو یا مرکب ہو،سُود اجتماعی سطح پر ہو یا انفرادی سطح پر ہو، فریقین کی رضا سے ہو یا عدم رضا سے، قومی سطح پر ہو،تجارتی اداروں کا ہو، اکیلا کوئی آدمی سُودی کاروبار کر رہا ہو وہ ہر مشکل میں حرام ہے۔ علی الاطلاق اللہ جل جلالہ نے سُود کو حرام قرار دے دیا ہے اللہ جل جلالہ نے تو یہاں سُود کی ایک خاص صورت ذکر کی ہے۔ قرآن مجید کا یہ اَندازمتعدد مقامات پر پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید سے مزید مثالیں قرآن مجید میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں: ﴿وَمَا رَبُّكَ بِظَلامٍ لِلْعَبِيدِ[1] ”آپ کا رب بندوں پہ بہت ظلم کرنے والا نہیں ہے۔“ ظَلامٍ مبالغہ کا صیغہ ہے۔ظالم ظلم کرنے والا ظَلامٍ (بہت زیادہ ظلم کرنے والا)اب اس کا مفہوم کوئی یہ نکالے کہ بہت زیادہ ظلم کرنے والا تو نہیں ہے لیکن تھوڑا ظلم، (معمولی
Flag Counter