Maktaba Wahhabi

380 - 545
اعتراض نمبر2: اسلامی بینکوں میں رائج اجارہ تمویل(فنانسنگ) ہے نہ کہ حقیقی اجارہ۔ جواب: یہ اعتراض غالباً1981ء؁ کی اسکیموں کےتحت ہے کیونکہ اب ایسا نہیں ہوتا،اب اجارہ حقیقتاً اجارہ ہی ہوتا ہے اور اُسی میں اسلامی شرائط کا خیال رکھاجاتا ہے ثبوت کے طور پر ”اسلامی بینک“ کی طرف سے شائع کردہ پمفلٹ بنام(فتویٰ) ص3 پر انہوں نے اجارہ کی وضاحت اورطریقہ کار سے متعلق جو تحریر کیا ہے ملاحظہ فرمائیں: کرایہ داری کا معاملہ اجارہ کے احکامات کے تحت انجام پاتا ہے جس کے مطابق بینک اسلامی”مؤجر“اور صارف”مستاجر“ ہوتا ہے۔اجارہ کے معاہدے اور طریقہ عمل(Process Flow) شریعہ سپر وائزری بورڈ سے منظور شدہ ہیں اجارہ کے تحت بینک اسلامی مطلوبہ مشین یا گاڑی خود یاکسی ایجنٹ/وکیل کے ذریعہ خرید کر صارف(Customer) کوکرایہ پر دیتا ہے۔ اثاثہ کی اصل ملکیت بینک اسلامی(مؤجر) کے پاس ہوتی ہے لیکن صارف(مستاجر) اس اثاثے (گاڑی یامشین) کواستعمال کرتا ہے اور اس کاکرایہ بینک اسلامی کو ادا کرتا ہے۔بینک کرایہ اس وقت سے لینا شروع کرتا ہے جب اجارہ پر دیا ہوا اثاثہ قابل استعمال حالت میں صارف(Customer) کے سپرد کردیا جائے۔اجارہ میں چونکہ اثاثے کا مالک بینک اسلامی ہوتاہے اس لیے ملکیت سے متعلق تمام امور کی ذمہ داری بھی بینک اسلامی ہی اٹھاتاہے ،اجارہ کی مدّت ختم ہونے کے بعد بینک اسلامی(مؤجر) وہ اثاثہ صارف(مستاجر) کو یا اس کے علاوہ کسی بھی شخص کو فروخت کرسکتا ہے،تاہم عملاً صارف ہی اس اثاثے کو خریدنے کا خواہشمند ہوتا ہے اس وجہ سے بینک اسلامی صارف ہی کو یہ اثاثہ فروخت کرتا ہے،یہ خریدوفروخت ایک علیحدہ معاہدے کے تحت ہوتی
Flag Counter