Maktaba Wahhabi

250 - 545
ہے اور کوئی قرینہ بھی اُسے خاص کرنے کے لیے موجود نہیں ہے تب ہم کس بنیاد پر(أَوْكَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا)کو جہالت والی قیمت پر محمول کریں گے؟فقہاء اور شارحین کی بیان کردہ وہ تشریح جس کی تائید میں دلیل، نص ، موجودنہ ہواُس کی کیا حیثیت ہے؟ بات اگر احناف کی حد تک ہوتی تو اس قدر قابل تعجب نہ تھی لیکن اہل الحدیث بھی اگر بغیر دلیل کے محض تاویلات کی بنیاد پر مفاہیم متعین کرنے لگیں تو یہ بات یقیناً قابل تشویش ہے، 2۔حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی روایت جسے اہل الحدیث فاتحہ خلف الامام پر منطبق کرتے ہیں ان کے پاس اس انطباق کی کیا دلیل ہے، سوائے اس کے کہ شارع علیہ السلام کا یہ حکم عام ہے جس کا مقتدی اور امام دونوں پر اطلاق ہوتا ہے یہاں بھی فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم عام ہے جس بھی چیز کی دو قیمتیں ہوں چاہے وہ کسی بھی سبب سے ہوں اُن دونوں میں سے کم والی جائز اور حلال ہے جبکہ زیادہ والی سوداور حرام ہے۔ اشکال نمبر2: بعض نے کہا اس سے یہ مراد ہے کہ مثلاً نقد 100اور اُدھار 150 تھے مشتری نے یہ چیز اُدھار خریدی یعنی ایک ماہ بعد 150 روپے دے گا اب یہ ایک قیمت متعین ہوگئی ایک ماہ بعد مشتری(Purchaser)نے کہا کہ ابھی میرے پاس رقم کا بندو بست نہیں ہوا آپ مجھے ایک ماہ کی مزید مہلت دے دیں تب بائع(Seller)نے کہا کہ مہلت بڑھے گی تو رقم بھی 150 سے 200 روپے ہو جائے گی، اب یہ زیادہ قیمت200روپے حرام ہیں اور کم قیمت 150روپے حلال ہیں جو کہ اصل قیمت ہے۔ جواب: یہ بات حدیث کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی خلاف ہے اس لیے کہ اصل قیمت 150 روپے نہیں تھی اصل تو وہ تھی جو نقد کی تھی100روپےدوسری بات یہ ہے کہ اب ایک ماہ
Flag Counter