Maktaba Wahhabi

566 - 545
”ہم وقف النقود کے جواز کی جو بات کرتے ہیں وہ مقلد وحنفی کی حیثیت سے کرتے ہیں،حنفیہ نے وقف المنقول بمع وقف النقود کو راجح اور مفتیٰ بہ قراردے دیا ہے ،لہٰذا ہمارے لیے اس کے مطابق عمل کرنا جائز ہے ،ورنہ علمی مباحث سے فقہ کا کونسا مسئلہ خالی ہے،ہرفقہی اور اجتہادی مسئلہ اختلافات کا شکار ہے ،خواہ وہ اختلافات خود حنفیہ کے ہاں آپس میں ہوں،یا دوسرے حضرات مجتہدین کے ساتھ ہوں ،جیساکہ اہل علم سے مخفی نہیں ،لہٰذا”وقف النقود“ کے مؤقف کو کمزور یا ناجائز کہنا درست نہیں ،ہاں!زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ اجتہادی اور اختلافی ہے،لیکن کسی مسئلہ کے اجتہادی واختلافی ہونے سے اس کا کمزور ہونا لازم نہیں آتا،ہاں! اس میں شک نہیں کہ احتیاط کا تقاضہ ہر مسئلہ میں یہی ہے کہ اس قول کو لیا جائے کہ جو متفق علیہ ہو،تاکہ اس میں تمام مذاہب اورتمام مواقف کی رعایت رہے،لہٰذا اگر تکافل کمپنیاں وقف پول کو نقود کی بجائے کسی غیر منقولہ جائیداد کی شکل میں بنائے،تو اس کے بہتر ہونے میں کوئی شک نہیں،لیکن اس کے خلاف کو اتنی نقول کے باوجود کمزور کہنا یاناجائز کہناہر گز جائز نہیں۔ “[1] اصلاحی جائزہ تحقیق کا یہ میدان اتنا سہل نہیں ہے کہ آدمی حنفی کہلا کر بری الذمہ ہوجائے جبکہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس قابل قدر تصنیف میں ص 126 پر لکھا ہے کہ: ”امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک منقولہ اشیاء کا وقف جائز نہیں کیونکہ وقف تابید چاہتا ہے اور منقولہ اشیاء میں تابید نہیں“[2]
Flag Counter