Maktaba Wahhabi

499 - 545
پھر تقاضا کیا کہ نہیں اصلی اور نفع دونوں دے دو، عبداللہ پھر چپ رہے اور عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے پھر وہی جواب دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مصاحبوں میں سے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کہنے لگے۔اے امیر المؤمنین!آپ اسےمضاربت کردیں تو بہتر ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس بات کو منظور کر لیا اصل زر اور نصف منافع بیت المال کے لیے لے لیا اور نصف منافع ان کو دے دیا۔ اس واقعہ سے تین باتیں سامنے آتی ہیں: 1۔اس دور میں سرمایہ اور محنت کی نفع میں برابر شراکت ہوتی تھی۔ 2۔مضاربت کی شکل میں سرمایہ محنت کرنے والے کے پاس بطور امانت ہوتا ہے اگرکسی وجہ سے مال تلف ہوجائے یا سرمائے کا نقصان ہوجائے تو اس کا تاوان عامل (محنت کش)پر نہیں پڑتا عامل کا نقصان اُس کی محنت کا نقصان ہے۔ 3۔قرض کی صورت میں مقروض ہر طرح کے نقصان کا ذمہ دار ہوتا ہے۔تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہر حال میں سرمایہ اور محنت کا حصہ برابر ہو یعنی بعض کاروبار ایسے ہوتے ہیں جن میں سرمائے کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اور محنت کم ایسی صورت میں محنت کا حصہ تہائی یا چوتھائی مقرر کیا جاسکتا ہے اسی طرح جس کام کاج میں سرمایہ کی کم اور محنت کی زیادہ ضرورت ہو، تو محنت کا حصہ بڑھ جائے گا چنانچہ خلفاء راشدین کے دور میں عموماً زمینوں کی بٹائی تہائی یا چوتھائی پر ہوتی رہی ہے، یعنی زمین والے کا حصہ 3/1یا4/1باقی محنت کش کا ہوتا تھا۔[1] 4۔راقم کے نزدیک اس سے ایک چوتھی بات بھی اخذ ہو رہی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ
Flag Counter