Maktaba Wahhabi

63 - 545
اسلامی بینکاری گذشتہ چند سالوں سے پوری دنیا میں بالعموم اور عالم اسلام میں بالخصوص اسلامی بیداری کی ہواچلی ہے۔اور امتِ مسلمہ اپنی پستی کےاسباب پرغور کرنے لگی ہے ،اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی بحالی کےلیے زعماء ہاتھ پاؤں مارنے لگے ہیں۔شعور کی آنکھ کھلی تو امت کے زوال میں سودی نظام کے کردار کا جائزہ بھی لیاگیا۔بالخصوص عالمی مالیاتی اداروں نے جو پسماندہ ممالک میں استحصالی نظام کے ذریعے اُودَھم مچارکھا ہے،اور غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر اسے تڑپنے پر مجبور کررہاہے،اس صورتحال کی وجہ سے سود سے نفرت بڑھی اور اس کے خلاف آواز بلند ہوئی تو فوراً اسلامی بینکاری کا فلسفہ معرض وجود میں آگیا۔مرحوم صدرضیاء الحق کے دور حکومت میں روایتی بینکوں میں ایک غیر سودی کھاتہ PLS کے نام سے متعارف کرایا گیا،اور باوریہ کرایا گیا کہ یہ نفع ونقصان میں شراکت کی بنیاد پر غیر سودی کھاتہ ہے۔حلال روزی کا اہتمام کرنے والے نیک دل لوگ اپنی سادگی کیوجہ سے اس کی طرف لپکے،حتیٰ کہ بعض دینی اداروں اور اسلامی مدارس نے بھی اپنے حسابات اس کھاتے میں کھلوائے۔ پھر جب حقیقت حال معلوم ہوئی تو لوگ اس سے پیچھے ہٹ گئے۔اب ایک مدت سے اسلامی بینکاری کا چرچہ ہے،اس کی بنیادیں اسلام میں تلاش کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ان کوششوں کی حقیقت جاننے کے لیے درج ذیل چند اقتسابات ملاحظہ فرمائیں اوراندازہ لگائیں کہ ان بنیادوں کی حقیقت کیاہے۔؟اور یہ بنیادیں کس قدر بے بنیاد ہیں۔!”اسلامی بینکاری کی بنیادیں“ کے مؤلف محترم مولانا محمد تقی عثمانی صاحب،ان بنیادوں کو اپنی درج ذیل تحریر میں بے بنیاد ثابت کررہےہیں۔اپنی اس کتاب کے ایک عنوان ”چند بنیادی نکات“ کے ذیل میں رقمطراز ہیں: ”یہ اسلامی ادارے ابھی بچپن کی عمر سے گزررہے ہیں،انہیں بہت ساری مجبوریوں
Flag Counter