Maktaba Wahhabi

571 - 545
تکافل کی جائز شکل مذکورہ بحث کے بعد قارئین کے ذہنوں میں یہ سوال یقیناً اُٹھ رہا ہوگا کہ کیا تکافل کی کوئی جائز شکل وصورت بھی ہوسکتی ہے یا نہیں یقیناً یہ صورت پیدا ہوسکتی ہے بشرط کہ اُس سے عقد معاوضہ اور اُس میں پائی جانے والی دیگر خرابیوں کو دور کردیا جائے اگرچہ اسلامی بینکاری نظام اس اعتبار سے قابل ستائش اور لائق تحسین ہے کہ کم از کم سود سے چھٹکارے کے لیے اسلامی معاشرے پر طاری جمود میں ایک تحریک تو پیدا کی جس کا یہ فائدہ بھی ہوا کہ ہرخاص وعام اس کی حلت وحرمت کو جاننے اور سمجھنے پر مجبور ہوگیا ہے مختلف مجالس اورمحافل میں یہی موضوع زیر بحث آنے لگا ہے۔ تحریر کے میدان میں بھی اس کی کلیات اور جزئیات پر علمی اور تحقیقی نوعیت کی کتب اور مضامین آنے لگے ہیں جو بلاشبہ ایک مفید اور علمی سرمایہ ہیں تاہم ابھی بھی اس میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے عقدِ معاوضہ سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ تکافل فنڈ میں جو شخص بھی رقم جمع کرائے وہ اپنے کسی ذاتی،مالی یا مادی فائدے کے لیے نہ ہو بلکہ سراسر نیک جذبے کےساتھ دوسروں کی فلاح اور اللہ کی خوشنودی مقصود ہو،جس طرح کا نیک جذبہ کسی خیراتی ادارے،دینی مدرسے یا کسی ہاسپٹل وغیرہ کو ڈونیش دیتے وقت ہوتا ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ عطیات زکوۃ فنڈ پر مشتمل نہ ہوں بلکہ اس کے علاوہ فنڈ سے ہوں کیونکہ اس فنڈ سے جو لوگ مستفید ہونگے ضروری نہیں کہ وہ زکوٰۃ کے حقدار ہوں عطیہ کرنے والا ہرشخص محض احسان،تبرُّع کرنے کی غرض سے دے،جس سے اغنیاء بھی مستفید ہوسکتے ہیں۔
Flag Counter