Maktaba Wahhabi

254 - 545
پر غورفرمائیں جس میں صاف لکھا ہے کہ یہ مدّت کا معاوضہ ہے جو حرام ہے۔ ہماری بھی یہی گزارش ہے کہ اُدھار میں جو قیمت بڑھائی جاتی ہے وہ مدّت کے عوض میں بڑھائی جاتی ہے لہذا آپ ہی کی پیش کردہ عبارت کی روشنی میں صریحاً حرام ہے۔ عثمانی صاحب کااشکال نمبر4: ”بات دراصل یہ ہے کہ مدّت کابراہ راست معاوضہ لیناتو ناجائز ہے ،مگر مدّت کی وجہ سے کسی چیز کی قیمت میں اضافہ جائز ہے،اسلئے دونوں عبارتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے“۔[1] جواب: جناب عثمانی صاحب کی مذکورہ عبارت پر غور فرمائیں اور پھر مندرجہ ذیل حدیث مبارکہ پر بھی غور فرمائیں تفصیلی بحث تو گذشتہ صفحات میں گزر چکی ہے یہاں ضمناً پیش خدمت ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں اگر کوئی شخص 5کلو گندم کسی کو دیتا ہے اور اُس کے عوض میں بھی صرف 5 کلوگندم ہی لیتا ہے۔لیکن پانچ دنوں کے بعد لیتا ہے تو شارع علیہ السلام اسے بھی سود قراردے رہے ہیں چونکہ یہاں برابری شرط نہیں تھی يَدًا بِيَدٍ کی بھی شرط تھی اور یہ مدّت بھی کسی کیش رقم پر نہیں بلکہ چیز پر ہے پھر اگر وہ شخص مدت کے بدلے گندم پوری لے تب بھی سود ہے اور اگر 5دن بعد ایک کلو بڑھاکر یعنی چھ کلو وصول کرے تب بھی سُودہے بلکہ ڈبل سودہے یعنی اوّل سُود تقابل والا اور دوسرا سود اُدھار والایعنی نسیئہ اس لیے یہ تاویل سوفیصد غلط ہے کہ رقم پر مدّت کے عوض رقم بڑھائی جائے تو وہ سُود ہے اور سامان پر مدّت کے عوض رقم بڑھائی جائے تو وہ سود نہیں یہ دعویٰ بلادلیل ہے۔
Flag Counter