Maktaba Wahhabi

448 - 545
تینوں میں ہر عقد اپنی الگ حیثیت میں جائز ہے اس لیے فقہاء کرام نے بھی اس کے جواز کا فتوی دیا ہے لیکن یہ جواز تب ہے جب یہ جدا ہوں اور ایک دوسرے سے مشروط نہ ہوں جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مشارکہ متناقصہ کی جو شکل محترم عمران اشرف عثمانی صاحب نے ”شرکت و مضاربت“میں ص 362 پربیان فرمائی ہے وہ شرط ہی ہے جووعدہ کی شکل میں ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں: ”اگر ایک عقد دوسرے عقد کے ساتھ مشروط نہ ہو بلکہ صرف دوسرے عقد کا وعدہ کیا جائے کہ دونوں فریق یہ وعدہ کریں کہ فلاں وقت میں اجارہ کریں گے اور فلاں تاریخ میں بیع کی جائے گی۔۔۔(یہ صورت درست اور جائز ہے)۔ سوال یہ ہے کہ مذکورہ شکل میں وعدے اور شرط میں کیا فرق باقی رہا ہے؟ مثلاً: زید اپنے دوست بکر سے ایک عقد کرتا ہے کہ آج میں تمھیں اپنا موٹر سائیکل (Honda 70)صرف پانچ ہزار روپےمیں فروخت کرتا ہوں اور یہ رعایت بھی دیتا ہوں کہ آپ یہ پانچ ہزارروپے بھی یک مشت نہیں بلکہ پانچ ماہ کی آسان ماہانہ قسطوں میں یعنی ایک ہزار روپے ماہانہ ادا کریں، البتہ آپ مجھ سے یہ وعدہ کریں کہ ٹھیک پانچ ماہ بعد دس تاریخ کو میری سُہراب سائیکل آپ 60 ہزار روپے میں خریدیں گے یہ شرط بھی وعدہ ہے لیکن کیا یہ پہلا عقد (Honda 70)کی بیع (سہراب سائیکل) کے ساتھ معلق نہیں؟ اور چونکہ احناف کے نزدیک حیلہ سازی کی کافی گنجائش موجود ہے اس لیے اس طرح کے عقود میں ان کے نزدیک کوئی عذرمانع نہیں ہے۔ بلکہ محترم تقی عثمانی صاحب کی ایک تحریر سے بھی ہمارے مؤقف کی تائید ہوتی ہے چنانچہ فرماتے ہیں: ”دوسرا موقع جس میں وعدے کو فقہاء حنفیہ نے لازم قراردیا ہے وہ وعدہ ہے جو کسی شرط پر معلق کر کے کیا گیا ہو، چنانچہ مجلۃ الاحکام العدلیہ میں مذکور ہے:
Flag Counter