Maktaba Wahhabi

447 - 545
مذکورہ اقتباس پر غور فرمائیں تو محترم تقی عثمانی صاحب نے واضح طور پر تسلیم کیا ہے کہ ”تینوں معاملوں کو اس طرح جمع کرنا کہ وہ ایک دوسرےکے لیےشرط بن جائیں تو یہ شرعاً جائز نہیں ہے“اور اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ ”اسلام کے قانونی نظام میں یہ طے شدہ اُصول ہے کہ ایک معاملے کو دوسرے کے لیے پیشگی شرط نہیں بنایا جا سکتا“یہاں تک تو محترم تقی عثمانی صاحب کی بات لائق تحسین ہے مگر لفظ لیکن سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ٭ ”لیکن مجوزہ اسکیم میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ دو معاملوں کو ایک دوسرے کے لیے شرط بنانے کے بجائے صرف عمیل کی طرف سے یک طرفہ وعدہ ہونا چاہیے ایک تو اس بات کا کہ وہ تمویل کار(Bank)کا حصہ اجارے(lease)پر لے کر کرایہ ادا کرے گا، دوسرے اس بات کا کہ وہ گھر میں تمویل کار کے حصے کے مختلف یونٹس مختلف مراحل پر خریدلے گا۔[1] ٹھیک ہے یہ وعدہ یک طرفہ ہے لیکن بینک کی خریداری کلائنٹ کے لیز پر لینے سےمشروط ہے اور لیز، بینک کے تمام یونٹ کلائنٹ کے خریدلینے سے مشروط ہے یہ وعدہ بھی اُسی طرح کا جبری وعدہ ہے جس طرح کا جبر صدقے میں اختیار کیا گیا ہے کیا اگر کلائنٹ لیز پر لینے کا وعدہ نہ کرے یا لیز پر تولے لے لیکن بینک کے یونٹس خریدنے کا وعدہ نہ کرے تو بھی بینک اُسے مکان صرف لیز پر دینے پر رضا مند ہوگا؟ہر گز نہیں۔ اسی بات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ وعدہ نہیں بلکہ بصورت وعدہ شرط ہے جوناجائز ہے۔ اسی طرح جناب عمران اشرف عثمانی صاحب نے تینوں کو الگ الگ ذکر کر کے اور تینوں کے الگ الگ حکم فقہائے کرام سے نقل فرما دئیے ظاہر ہے کہ ان
Flag Counter