ہمیں مذکورہ تاویلی توضیح سے اختلاف ہے لیکن اس اختلافی بحث سے قبل جناب عمران اشرف عثمانی صاحب کے والد گرامی جناب محترم تقی عثمانی صاحب کی ایک بحث بھی نقل کرنا ضروری ہے جو انھوں نے وعدہ عہد، معاہدہ اور عقد کے باہمی فرق کے ضمن میں فرمائی۔ تاکہ فریقین کے دلائل کا ایک ساتھ تجزیہ کیا جا سکے چنانچہ اپنی کتاب غیر سُودی بینکاری میں وعدے کی شرعی حیثیت کے عنوان کے تحت یوں رقمطراز”پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ چار مختلف الفاظ ہیں جن میں بعض اوقات التباس ہے۔اُن کی حقیقت الگ الگ سمجھنی ضروری ہے۔
1۔ایک وعدہ ہے،
2۔دوسرا عہد۔
تیسرا معاہدہ۔
اور چوتھا عقد۔
جہاں تک عقد کا تعلق ہے، وہ کسی معاملے کو بالفعل وجود میں لانے کو کہتے ہیں مثلاً بیع کہ اس میں ایجاب و قبول کرنے سے عقد وجود میں آجاتا ہے اور اُس کے نتیجے میں مشتری کی طرف مبیع کی ملکیت فوراً منتقل ہو جاتی ہے، اور بائع کو ثمن کے مطالبے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ بیع کے نتیجے میں فریقین پر عقد کی ذمہ داریاں لازم ہو جاتی ہیں، اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ وعدہ یک طرفہ ہوتا ہے جس میں ایک فریق دوسرے کو کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ میں تم سے کل فلاں مال اتنی قیمت پر خریدلوں گا۔ دو طرفہ وعدہ ہوتا ہے، مثلاً فریقین ایک دوسرے کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم فلاں تاریخ کو آپس میں بیع کریں گے۔”عہد“کا لفظ بعض اوقات وعدے کے لیے بولا جاتا ہے، مگر عرف عام میں اُس میں پختگی
|