Maktaba Wahhabi

375 - 545
الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے اُس کو نہ صرف ناجائز ، بلکہ سُود ہی کی دوسری شکل قرار دیا تھا۔ میرےاس مضمون کو اُن بعض حضرات نے مرابحہ مؤجلہ کے صحیح طریقے کو بھی بالکل ناجائز قراردینے کے لیے حجت کے طور پر پیش کیا ہے جو اس وقت غیر سُودی بینکوں میں رائج ہے بلکہ یہ دعویٰ فرمایا ہے کہ: ”ان حیلوں کے ذریعے حاصل ہونے والا مرابحہ کا”ربح“اور اجارہ کی اُجرت 1981ء؁ کی بلا سُود بینکاری کے ”مارک اَپ“سے سرِمومختلف نہیں ہے۔ جس طرح وہ”مارک اَپ“شرعی اعتبار سے خالص سُود اور سرمایہ کاری کے اسلامی نظام پر بد نماداغ تھا، اسی طرح، بلکہ اس سے بڑھ کر مروجہ مرابحہ کا ربح اور اجارہ کی اُجرت بھی سُود ہے۔“[1] چونکہ شروع میں غیر سودی بینکوں نے حکومتی ایماء پر یا اپنی کوتاہی کے سبب جو غلطیاں کیں اور بعد میں علماء کی طرف سے کی جانے والی تنقیدات کی روشنی میں بینک اپنے طریقہ کار میں اصلاحات لائے اور اُن عیوب کو حتی المقدور دور کیا تو یقیناً اُن اصلاحات کے بعد ناقد کی نظر میں بھی تبدیلی آئے گی اور آنی بھی چاہیے۔ فرض کر لیجئے کہ ایک عالم نے زید کو پتھر کی مورتی کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑا دیکھا تو وہ کہے گا کہ یہ شخص غیر اللہ کا پجاری ہے لہٰذا مشرک ہے، دوسرے دن اُس نے اُسی شخص کو مسجد میں بیٹھ کر رو رو کر ہاتھ اُٹھا کر یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ یا اللہ تیرا کوئی شریک نہیں۔ تو وحدہ لاشریک ہے میں کتنا بے وقوف تھا جو حقیقی اور زندہ معبود کو چھوڑ کر بے جان مورتیوں کے آگے جھکتا رہا، اے اللہ مجھے معاف کردے۔جب اس کا عمل بدلا تو یقیناً اُس مفتی کا ذہن بھی تبدیل ہوگا۔ کل اُس پر مشرک ہونے کا فتوی صادر فرمایا تھا تو آج اُس پر مسلم ہونے کی شہادت بھی دی جائے گی۔ اس
Flag Counter