Maktaba Wahhabi

373 - 545
سُودی بینکوں میں رائج تھے، متبادل نہ ملنے کی شکل میں تھوڑے بہت ردو بدل سے اپنے ہاں بھی وہی طریقہ رائج کردیا۔ جس سے اسلامی بینکوں کی ساکھ کو بے حد نقصان پہنچا، گویا اسلامی بینکوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی قبر کھودنے کا اہتمام کیا۔ 4۔جسٹس تقی عثمانی صاحب نے اپنے مضامین اور اپنی تحریروں میں اسلامی بینکوں میں رائج غیر اسلامی موڈز کی پوری شدو مد دسے مخالفت کی،علماء اور عوام الناس میں یہ تحریریں اس امتیاز کے بغیر شہرت حاصل کر گئیں کہ یہ مخالفت اسلامی بینکوں کی نہیں بلکہ اُن میں رائج غیر اسلامی طریقوں کی ہے ، چونکہ مولانا تقی عثمانی صاحب اس میدان میں ایک خاص شہرہ رکھتے ہیں اس لیے لوگوں کے لیے بالخصوص اسلامی بینکوں کے مخالفین کے لیے اُن کی ان تحریروں نے سند کا درجہ حاصل کیا اور مخالفین اسی کو بنیاد بنا کرکیچڑاُچھالنے لگے۔ 5۔ بعض علماء نے محض سنی سنائی باتوں کو بنیاد بنا کر اسلامی بینکوں کے طریقہ کار پر خوب ہاتھ صاف کیے اور یہ بلاوجہ کے تبصرے بھی تنقیدات کا ایک بڑا سبب بنے۔ 6۔مولاناتقی عثمانی صاحب کی تحریروں میں پایا جانے والا ظاہری تضاد بھی ایک وجہ بناہے ہمارے اس تجزیے کی تائید محترم مولانا تقی عثمانی صاحب کے اپنے بیان سے بھی ہوتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: چنانچہ فرماتے ہیں! 1981ء؁میں، یعنی آج سے اٹھائیس سال پہلے”غیر سُودی کاؤنٹر“کے نام سے(میرا مضمون) اُس وقت شائع ہوا تھا جب صدر ضیاءالحق صاحب مرحوم کے عہد حکومت میں پہلی بار غیر سُودی بینکاری کو نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا، اور اس غرض کے لیے غیر سُودی کاؤنٹر الگ بنائے گئے تھے۔ جب میں نے ان کے طریق کار کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان میں اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کو حلیہ بگاڑ کرنا فذ کیا گیا ہے، اس میں مرابحہ یا بیع مؤجل کا
Flag Counter