Maktaba Wahhabi

366 - 545
ہیں چنانچہ اگر کوئی لاٹری اور سٹے کا متبادل مانگے تو ہمیں کوئی متبادل دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ان کا انسان کی حقیقی ضرورت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن جو چیز انسانی ضرورت میں داخل ہو یا داخل ہوچکی ہو لیکن اُسے حاصل کرنے کے لیے طریقہ غلط اور ناجائز اختیار کر لیاگیاہو۔ اُس کے لیے متبادل جائز طریقہ تلاش کرنا نہ صرف مستحسن بلکہ مسنون ہے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ اس اصول کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر موجودہ بینکوں کا جائزہ لیا جائے تو اُن کے بہت سے کام انسانی ضرورت بن چکے ہیں،آج ہر وہ شخص جس کے پاس بچت کی کوئی رقم ہے، وہ اُسے بینکوں میں رکھوانے پر تقریباً مجبور ہے، اسی طرح بین الاقوامی تجارت میں بینکوں سے کوئی تاجر مستغنی نہیں ہو سکتا، رقوم کو ایک جگہ سے دوسری جگہوں تک بھجوانے کے لیے بینکوں کے سوا کوئی محفوظ راستہ نہیں ہے اس کے علاوہ لوگوں کی بچتیں ایک جگہ جمع کر کے ان کو ملک کی صنعت و تجارت میں استعمال کرنا بذات خود ایک درست مقصد ہے، لیکن ان تمام جائز مقاصد کے لیے سُود کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہے، وہ حرام اور مضر ہے، اس لیے ہم ایسا راستہ تلاش کرنے کے مکلف ہیں جس کے ذریعہ سُود کی حرمت سے بچ کر وہ جائز مقاصد حاصل کئے جا سکیں۔ غیر سُودی نظام لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر مسلمان تاجر اسلام کےبیان کردہ رہنما اُصولوں سے واقف ہو، حلت و حرمت کے مسائل سے آگاہ ہو چنانچہ اس کی اہمیت کے پیش نظر خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں یہ حکم جاری فرمایا۔ (لاْ يَبِعْ فِيْ سُوْقِنَا إِلاْ مَنْ قَدْ تَفَقَّهَ فِيْ الدِّيْنِ)[1] ”ہمارے بازار میں وہی خریدو فروخت کرے جسے دین کی سمجھ ہو۔ “
Flag Counter