صحائف میں اس مسئلے پر ہمیں واضح تعلیمات جو ہیں وہ دکھائی دیتی ہیں یہودیت کی کتاب تورات ہویاعہدنامہ قدیم ہو یا عیسائیت کی کتاب انجیل یا عہد نامہ جدید ہو ان دونوں کے کتابوں کے حوالے سے بھی واضح طور پر سودی معیشت اور سودی افکار کی نفی اور ان کی مذمت اور ان کی حرمت جو ہے وہ ہمیں واضح طور پر دکھائی دیتی ہے قرآن مجید میں بھی اس سودی معیشت کےبارے میں جو لب ولہجہ اختیار کیاگیا ہے،یہ سب سے زیادہ منفرد قسم کا اسلوب اس حوالے سے ہے کہ جوسختی اور جو شدت ہمیں اس سلوب کے اندر دکھائی دیتی ہے وہ قرآن مجید کے دوسرے احکامات کےاندر جو کہ زندگی کے سینکڑوں موضوعات پر جو احکامات موجود ہیں جن کےاندر حدود بھی ہیں جن کے اندر احکامات بھی ہیں لیکن اس حکم کو بیان کرتےہوئے لب ولہجہ کے اندر جو سختی اور جو شدت اختیار کی گئی آخر اس کی کیا وجہ ہے؟قرآن مجید کےمطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جل جلالہ ظلم کو اور شرک کو کسی صورت گوارا نہیں کرتا اور سود کے مزاج کے اندر یہ ظلم وشرک موجود ہے ظلم تو اس اعتبار سے کہ یہ دنیاکے اندر طبقات کو جنم دیتا ہے مجبوروں کی محرومیوں کی تجارت کرتا ہے اور معاشرے کے اندر مجبوروں کی ضروریات جو ہیں ان سے ایک ہلاکت آفریں قسم کے تصور کے ساتھ ان سے یہ لوٹ کھسوٹ کا ایک نظام دنیا کے اندر پیدا کرتا ہے اور شرک اس اعتبار سے کہ اللہ جل جلالہ کی جو صفت ربوبیت ہے اس کائنات کی پیدائش میں اور اس کائنات کے رزق اور وسائل کے اندر کوئی دوسری چیز ایسی نہیں ہے کہ جس کےاندر اللہ جل جلالہ نے کسی دوسرے انسان کی ضرورت کو کبھی محسوس کیا ہو اس کائنات کی پیدائش،اس کائنات کے وسائل،اس کائنات معاشی ذرائع ان سب کے اندراللہ جل جلالہ نے اپنی ذات کے علاوہ کسی دوسرے کو شریک نہیں رکھا ہے اللہ جل جلالہ کی ربوبیت تمام انسانوں کے لیے عام ہے اس سود کے حوالے سے دراصل ایک انسان سرمائے کی قوت کی بنیاد پر
|