Maktaba Wahhabi

342 - 545
اسی قدر وسیع تر بھی ہیں۔تمہیداً آپ کے سامنے ایک بات عرض کردوں کہ اسلام کا معاشی نظام جو ہے یہ اسلام کے کلیۃً جو نظام زندگی ہے اس سے کوئی مختلف چیز نہیں ہمارے ہاں عموماً یہ ایک رجحان پایا جاتا ہے کہ ہم مختلف موضوعات کاتجزیہ کرتے ہوئے جو انٹر لیٹڈ(Interrelated) حقیقتیں ہیں ان کا جائزہ نہیں لیتے جس طرح ایک انسان جسم ہے اگر اس میں سے آنکھیں الگ کردی جائیں کان الگ کردئیے جائیں،زبان الگ کردی جائے،اعضاء جوارح کو الگ الگ کردیاجائے تو باوجود اس کے کہ وہ انسانی جسم کے سالم اعضاء کہلائیں گے لیکن ان کے فنکشن(Functions) ان کی معنویت یا ان کی افادیت وہ ختم ہوکر رہ جائے گی بعینہ اگر اسلام کے مجموعی تصور زندگی کے وہ سارے کے سارے اجزاء جو اس کے ریاستی امور کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو اس کے معاشرتی مزاج کے ساتھ تعلق رکھتےہیں جو اس کے تعلیمی اور تہذیبی اور عمرانی اور عدالتی اور معاشی اور معاشرتی پہلوؤں سے تعلق رکھتے ہیں اگر ان کو الگ الگ کرکے ان کا جائزہ لیاجائے تو پھر یہ اپنی کوئی افادیت جو ہے وہ پیدا نہیں کرتے۔ہمیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح سے خودیونانیوں کے ہاں بھی وہ ایک سودی معیشت کو درست تصور نہیں کرتے افلاطون کا نام اس کی ری پبلک کے حوالے سے اور پھر ارسطو کا نام اس کے افکار کے حوالے سے ہمارے سامنے لیاجاتا ہے لیکن عجیب اتفاق ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ کوئی دینی منہج کےفلاسفر یامفکرین نہیں تھے لیکن ان کے ہاں بھی ان کے افکار میں اس سودی معیشت کو یا سودی افکار کی ممانعت یا نفی جو ہے وہ ہمیں دکھائی دیتی ہے اسکے بعد آسمان سے دین تو ایک ہی اترا ہے جسے اسلام کہتے ہیں لیکن مختلف زمانوں اور تاریخ کے مختلف ادوار کے اندر شرائع کے اندر ایک اختلاف موجود رہا ہے اور شرائع کے حوالے سے ہم یہ بات محسوس کرتے ہیں جتنے بھی ادیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے موجود رہے ہیں ان ادیان کی کتابوں اور
Flag Counter