Maktaba Wahhabi

311 - 545
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ))[1] ”میرے چچا عباس رضی اللہ عنہ کا سارا سُود معاف ہے، اب کسی سے یہ سُود نہیں لیں گے صرف اپنی اصل رقم ہی لیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ سُود کی سب سے اچھی تعریف جو کی گئی ہے وہ علامہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ تعریف ہے، اہل علم اس کی بہت تعریف کرتےہیں کیونکہ یہ جامع اور مانع ہے۔ لیکن اسے بھی گہری نظر سے دیکھا جائے تو وہ بھی ناقص ہے، کیونکہ سُود کی کی کچھ صورتوں پر وہ صادق نہیں آتی اور وہ صورتیں اس تعریف کے مطابق جائز بنتی ہیں، جبکہ قرآن مجید نے سُود کی ہر قسم اور ہر صورت کو حرام کیا ہے: سپریم کورٹ میں بھی کافی عرصہ تک یہ بحث ہوتی رہی ہے، سُود کے حامی وہاں بھی یہی نکتہ اُٹھاتے رہی ہیں کہ سُودتعریف تو کرو! ان کا مقصد یہ تھا کہ جب یہ تعریف کریں گے تو قرآن و حدیث کی راہ سے ہٹ جائیں گے پھر ہم اس تعریف کے بخیے اُدھیڑ دیں گے اور بات دھری کی دھری رہ جائے گی۔اب آپ چوری کو ہی لے لیں، قرآن نے کہا ہے کہ: چور مرد ہو یا چور عورت، ان کے ہاتھ کاٹ دو۔ تو کیا قرآن نے اس حکم سے قبل چوری کی کوئی تعریف کی ہے؟ یہ سب باتیں اصل دین سے دور ہٹنے اور ہٹانے کی ہیں اللہ ہمیں محفوظ فرمائے۔(آمین)
Flag Counter