Maktaba Wahhabi

116 - 545
میں اُسے مختلف سودی اسکیمیں تجویز کرنے اور سُود کے نت نئے نئے پرو گرام تشکیل دینے،نت نئے ناموں سے اُسے متعارف کرانے میں خاص ملکہ اور شہرہ حاصل تھا۔اُس کی اسی لیاقت اورذہانت کی بنیاد پر بڑے بڑے ادارے اُسے ڈائریکٹر آف فائنانس کی پوسٹ پر ہائر کرتے،آج اللہ جل جلالہ نے اُس سے وہ نعمت عظمیٰ ہی چھین لی،عقلی گھوڑے دوڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ تجارت بھی تو سود کی طرح ہے ۔تم ایک چیز دس روپے کی لیتے ہو اور پھر بارہ یا پندرہ روپے کی بیچتے ہو یہ بھی تو سود کی طرح ہے اگر یہ حلال ہے تو پھر ہم بھی کسی کو دس روپے دیتے ہیں پھر اُس پر بارہ روپے یا پندرہ روپے واپس لیتے ہیں تو یہ حرام کیسے ہوا؟ © اللہ جل جلالہ نے اس کے جواب میں کوئی بحث نہیں فرمائی اور نہ ہی کوئی عقلی دلیل اُسے سمجھانے کے لیے دی بلکہ حلال اورحرام کے کلی اختیارات اپنے پاس رکھتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا: ﴿وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا[1] ”تجارت کو اللہ جل جلالہ نے حلال کیا ہے اور سُود کو حرام۔“ تجارت اور سُود ایک نہیں ہیں بلکہ دو متضاد چیزیں اور حیثیتیں ہیں چونکہ تجارت کو للہ جل جلالہ حلال قراردیتا ہے۔اسی آیت کو سامنے رکھتے ہوئے ایک اُصولی بات یاد رکھنی چاہیے کہ جو نفع ہم تجارت کے طور پر حاصل کرتے ہیں وہ رقم کا معاوضہ نہیں ہے بلکہ وہ تاجر کی محنت کا معاوضہ ہے اور جو نفع سُود کے
Flag Counter