کریں وغیرہ۔
بری صحبت سے بچائیں :
بچے کی صحبت کا خیال رکھیں اس کے دوست کیسے ہیں ۔ اس کے دوست نیک ہونے چاہیٔں ۔ بچے کے دوستوں کے گھر جاکر دیکھیں کہ وہ کیسے لوگ ہیں ۔ اس کے سکول کا ماحول کیا ہے؟ ادب ، آداب کا خیال رکھا جاتا ہے کہ نہیں ؟ کیونکہ آپ اچھے ماحول کے بغیر بچے کی تربیت نہیں کرسکتے۔ سب سے بڑھ کر بچے کو نصیحت کریں ۔ بچےنے راہنمائی، مسلسل نگرانی اور مسلسل کوشش سے سیکھنا ہے۔ اس کے بعد آپ امید کرسکتی ہیں کہ وہ بدزبانی نہیں کرے گا۔
اصل بات ہے ہم سمجھتے ہیں کہ بچے کی تربیت کرنا بڑا فالتو کام ہے۔کھلانا پلانا تو ضروری ہے، بھوکا ہوگا تو روئے گا، بچے کو صاف رکھنابھی ضروری ہے، ورنہ لوگ کیا کہیں گے تو یہ سب ہماری مجبوریاں ہیں ۔ مگر بچے کی روحانی تربیت کی طرف توجہ نہیں دیتے کیونکہ وہ کسی کو نظر نہیں آرہی ہوتی۔ حالانکہ اللہ نےعورت پر معاشی ذمہ داری نہیں ڈالی، جہاد فرض نہیں کیا، یہاں تک کہ باجماعت نماز فرض نہیں کی۔ تو اللہ نے جو ان ذمہ داریوں سے عورت کو فارغ کیا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اولاد کی تربیت ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ 24 گھنٹے کی ڈیوٹی ہے کہ ایک لمحہ بھی اس سے غافل نہیں ہوسکتے۔ ہم بچے کی پرورش کردیتے ہیں ، تربیت نہیں کرتے۔
آئیےدیکھیں سلف صالحین کس طرح بچوں کی تربیت کرتے اور ان کو اچھی طرح گفتگو کرنا سکھاتے۔
ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں قحط پڑ گیا۔مختلف قبائل خلیفہ کے پاس آنے لگ پڑے۔ ان حاضری دینے والوں میں سے دُرداس بن حبیب بھی تھے۔ دُرداس کی عمر صرف 14 سال تھی۔ ہشام نے بُرا منایا اپنے دربان سے کہا جو بھی میرے پاس آنا چاہتا ہے آجاتا ہے، حتیٰ کہ بچے بھی آجاتے ہیں ۔ دُرداس فوراً سمجھ گئے کہ خلیفہ کا اشارہ اُن کی طرف ہے۔کہنے لگے امیرالمؤمنین میرے آپ کے پاس آنےسے آپ کی شان میں تو کوئی فرق
|