کا شاگرد کےساتھ روحانی تعلق ہوتا تھا۔
استاد کا رتبہ:
دین نے استاد کو بہت اہمیت دی ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی استاد ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’میں استاد بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔‘‘
ہمارے دین میں استاد اور شاگرد کے تعلقات کی بڑی شاندار روایات ہیں ۔
آج بچے کو پتہ ہے کہ میں استاد کو فیس دیتا ہوں اس کا مطلب ہے کہ وہ مجھے کچھ نہ کہے۔ جبکہ دینی طور پر تعلیم و تربیت دین کے اُس حکم کے تحت آتی تھی
’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ اس لیے ہماری دینی روایات میں نہ تو طبیب تنخواہ لیتا اور نہ استاد۔ اور یہ روایات آج بھی باقی ہیں ۔ استاد اور شاگردوں کا تعلق بھی کچھ نہ کچھ باقی ہے۔
آج کل ڈاکٹرز ڈاکو بن گئے ان کو معلوم ہی نہیں کہ انہوں نے خیر خواہی کرنی ہے۔ اچھے لوگ ویسے ہر جگہ موجود ہیں مگر یہ عمومی بات ہے یہ پیشے (Commercialize) ہوگئے ہیں اور بچوں کی تربیت کے مسائل بڑھ گئے۔ پہلے ہوتا یہ تھا کہ مائیں بچے کو استاد کے حوالے کردیتی تھیں ۔ ہڈیاں ہماری اور گوشت تمہارا۔ اس کے ساتھ ساتھ بچہ استاد کی خدمت بھی کرتا تھا، گھروں کے کام بھی کرتا اور استاد بھی اس کو اولاد کی طرح پالتا۔ آج ماں باپ اس با ت کے روا دار نہیں کہ استاد بچے کو سزا دے۔ پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ بچے کو ماریں گے تو نہیں ؟۔ باقی عام طور پر بچے کے ساتھ شفقت اور محبت کا سلوک ہونا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کونہیں مارا۔ لیکن جہاں ضرورت ہو وہاں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
’’ادب کا ڈنڈا ان کے سر سے نہ اٹھاؤ۔‘‘[1]
|