گا؟میں جب اپنے بچوں کی ڈلیوری کے موقع پر جاتی ہوں تو اپنےبیٹے یا داماد سے جو بھی موجود ہو اس سے کہہ دیتی ہوں کہ اذان دے دو اور بہت سی دوسری خواتین آجاتی ہیں کہ ہمارے بچے کے کان میں بھی اذان دے دیں ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہوتا کیونکہ ان کے مرد یہ کام کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتےحالانکہ یہ بڑا سادہ سا کام ہے۔اذان ہر مسلمان کو آتی ہےاس کے لیے ہم یہ کرتے ہیں کہ ایک کاغذ کورول کرلیا یا کوئی پلاسٹک کی نالی لے لی جائےاس کو بچے کے کان میں رکھ کر اذان دیں یا پھر بچے کے کان میں ڈائریکٹ اذان دے دیں ۔
حدیث میں اذان کہنے کی جو حکمت بتائی جا تی ہے اسکے مطابق یہ کام بچے کی پیدائش کے بعد جلد ہو جانا چاہیے۔ہمارے ہاں ہوتا بھی ہے تو چھ سات گھنٹے بعد اوراول تو اکثریت یہ کام کرتی ہی نہیں ۔حالانکہ یہ کام ضروری ہے اور اذان مرد ہی دے ۔بچے کی ولادت کےلیے ہسپتال جائیں تو پہلے سے انتظام و اہتمام کر کے جائیں ۔اصل میں ہمیں اس کی اہمیت کا احساس نہیں ہے۔جب اہمیت کااحساس ہو جائے کہ اس سے شیطان دور ہوجاتا ہےاور بچے کی روح پر اثر پڑتا ہےاس کا تعلق اللہ سے جڑتا ہے۔پھرہم اس کا اہتمام کریں گے۔
بچے کو نہلانا:
پھر اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے ہمارے ہسپتالوں میں عام طور پر بچوں کو نہلایا نہیں جاتا۔ ڈاکٹرز ان کو روئی وغیرہ سے صاف کردیتے ہیں یہ تصور طہارت کے اعتبار سے درست نہیں ۔ اس لیے ہسپتال سے آکربچے کو فوراًنہلائیں تا کہ وہ پاک ہو جائے۔اگر ہسپتال سے چھٹی نہ ملے تو وہاں بھی جیسے ہی حالات سازگار ہوں بچے کونہلانے کا انتظام کریں ۔اگر نہلانے سے نقصان کا اندیشہ ہو توتین دفعہ گرم پانی سے روئی بھگو کر اچھی طرح صاف کریں ۔
تحنیک کرنا (گھٹی دینا)
اب اگلا کام یہ کہ بچے کو گھٹی دی جائے ۔صحابہ اس کا خاص طور پر اہتمام کرتے اس
|