بچے کے دوستوں کو گھر بلایا جائے۔ سب سے ان کی بات چیت کروائیں ۔ پھر وہ شرم ختم ہو جائے گی۔ بچوں کو رشتہ داروں کی طرف لے کر جائیں ۔ اس عادت کی وجہ یہ ہے کہ خود اعتمادی نہیں ہوتی انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ غلط ہو رہا ہے مگر بولنے کا حوصلہ نہیں پڑتا۔ احادیث میں بچوں کی جرات کےبہت سے واقعات ملتے ہیں ۔
سہل بن سعد روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی مشروب لایا گیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے پیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف ایک بچہ بیٹھا تھا۔ جوسب سے چھوٹا تھا ۔بڑی عمر کے لوگ بائیں طرف بیٹھے تھے ۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے سے پوچھا کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں بچا ہوا مشروب ان کو دے دوں وہ بچہ جرات مند تھا کہنے لگا نہیں اللہ کی قسم !نہیں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہونے والے تبرک کے بارے میں کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ [1]
اسی طرح مدینہ کے ایک راستے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا بچے وہاں کھیل رہے تھے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، جنہوں نے بعد میں خلافت کا منصب بھی سنبھالا ہے۔ وہیں کھڑے رہے جب کہ دوسرے بچے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر ڈر سے بھاگ گئے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ وہیں کھڑے رہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور پوچھا کہ تم دوسرے بچوں کی طرح وہاں سے کیوں نہیں بھاگے؟حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے فورا جواب دیا میں کوئی مجرم ہوں جو یہاں سے بھاگ جاؤں یا راستہ تنگ ہو اور میں آپ رضی اللہ عنہ کو راستہ دینے کے لیے ہٹ جاؤں تو نہ تو میں مجرم ہوں نہ ہی راستہ تنگ ہے۔ یہ ہے بچے کی جرات۔
والدین توجہ کریں گے تو یہ شرمیلا پن ختم ہو جائے گا۔
(2) خوف:
خوف ایک ایسی نفسیاتی عادت ہے جو بڑوں ، چھوٹوں ، بوڑھوں سب کو پیش آتی ہے۔
|