ہےاور یہی غلطی ہم بچے کی تربیت میں بھی کر رہے ہوتے ہیں ۔ ورنہ شریعت کی تعلیمات تو یہی ہیں کہ بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور دین اسلام دین فطرت ہے۔ بچے کو اسی فطرت کے مطابق تعلیم دی جائے۔ اس کو اچھا ماحول دیا جائے۔ بچپن میں ایمان اس کے دل میں ڈال دیں ۔اسے ذہن نشین کرا دیں کہ اس کے ہر عمل کا آخرت میں بدلہ ملے گا۔ تو آپ اسے ایک اچھی بنیاد دے رہے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تربیت کا طریقہ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’اے بچے!میں تجھے چند باتیں سکھاتا ہوں ۔ (یہ چھوٹے صحابہ میں سے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت ان کی عمر 13 سال تھی)تم اللہ کو یاد کرو اللہ تیری حفاظت کرےگا۔ تم اللہ کو یاد کرو تم اللہ کو اپنے سامنے پاؤ گے۔ اور جب تم مانگو تو صرف اللہ ہی سے مانگو اور جب تم مدد مانگو تو صرف اللہ ہی سے مانگو اور اس بات کو جان لو کہ اگر تمام مخلوق مل کر تمھیں نقصان پہنچانا چاہے ۔تو اتنا ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں جتنا اللہ نے تمھارے لیے لکھ رکھا ہے۔ قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہو گئے۔‘‘[1]
سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا کہ اللہ کا تقوی رکھو۔ اور یہ کہ اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے اور یہ کہ مانگنا ہے تو صرف اللہ سے مانگو۔ اور دوسری بات یہ کہ اللہ تمھارے ساتھ ہوگا۔ اللہ ہی نفع نقصان کا مالک ہے اور تقدیر کا عقیدہ بھی سکھا دیا گیا۔
ایمانی تربیت بنیادی اور اہم ترین ہے:
والدین پر ایمانی تربیت کی ذمہ داری سب سے اہم ہے کیونکہ تمام تربیتوں کی بنیاد ہے۔ بچے کے ایمان میں داخل ہونے کے لیے یہ بنیادی چیز ہے اور اسلام کا پل ہے۔ اس تربیت کے بغیر نہ بچہ کسی ذمہ داری کو پورا کر سکتا ہے ، نہ امانت و دیانت سے کام لے سکتا ہے
|