نے فرمایا نہیں !تم نے تو ان کی ایک آہ کے برابربھی حق ادا نہ کیا۔[1] اسی طرح ایک شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ایسی سخت گرمی کے موسم میں اگر گوشت کا ٹکڑا زمین پر ڈال دیا جاے تو وہ بھی پک جاے میں نے اپنی والدہ کو گردن پر بٹھا کر سفر کروایا (تقریباً ۱۶ کلو میٹر کے برابر) کیا میں نے ان کی خدمت کا حق ادا کر دیا؟فرمایا ممکن ہےدردِزہ کی ایک درد کے برابر ہو جائے۔
’’ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیک سلوک کی نصیحت کی اس کو اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھایا کر پیٹ میں رکھا اوردو برس میں اس کا دودھ چھڑایا۔کہ میرا بھی شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی شکریہ ادا کرو۔‘‘ (لقمان : 14)
بعض اوقات والدہ سے نیکی کر رہے ہوتے ہیں اور والد کی نا فر مانی کر جاتے ہیں تو اِس بات کا خیال رکھیں کہ اطاعت کا حق والد کا زیادہ ہے۔اور خدمت کا اور احسانِ سلوک کا حق والدہ کا زیادہ ہے۔کیونکہ والد گھر کا قوام ہے، گھر کی جو پالیسی بنانی ہے وہ والد نے بنانی ہے۔ اصول طے کرنے کا کام والد کا ہے۔والد کی اطاعت کرنا اولاد کے لیےضروری ہے۔اِسی طرح بیوی کے لیےبھی۔ماں کا حق تین گنا زیادہ ہے۔اطاعت میں نہیں حسن سلوک میں۔مثلاً امی آپ کیسی ہیں ،آئیں میں آپ کو باہر لے چلوں ،ڈاکٹر پر لے جاؤں ،پیسے دے دوں وغیرہ۔اگر باپ کوئی حکم دے تو ماں بذاتِ خود بھی بطور بیوی اُس کو ماننے کی پابند ہے اور بچے بھی۔دل جوئی،حسنِ سلوک ماں سے زیادہ کریں اور فرماں برداری باپ کی زیادہ کریں ۔
والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے آداب:
﴿وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ وَ بِالْوَالِدَيْنِ۠ اِحْسَانًا١ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا
|