کیا۔ کہ میں جہاد میں شرکت کرنا چاہتاہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا! کیا تمھارے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے کہا جی ہاں ! فرمایا! انہی کے اندر جہاد کرو۔یعنی ان کی خدمت کرو۔[1]
حضرت جھیمہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد کرنا چاہتا ہوں ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمھاری والدہ زندہ ہیں ؟ کہا ہاں ! فرمایا جاؤ جا کر ان کی خدمت کرو جنت ان کے پاؤں کے نیچے ہے۔اسی طرح اگر مسلمان والدین ہوں اور وہ اولاد کو جہاد میں جانے کی اجازت نہ دیں تو وہ جہاد نہیں کر سکتا۔والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ایک حصّہ یہ بھی ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے لیے دعا کی جائے۔ ان کے دوستوں کی عزت کی جائے۔ان کے لیے دعا کا اس حد تک اجر ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میت کا مرنےکے بعد قبر میں درجہ بڑھا دیا جائے گا۔ وہ پوچھے گا اے میرے رب ایسا کس لیے ہے؟ اللہ فرمائیں گے اس لیے کہ تمھارے بیٹے نے تمھارے لیے استغفار کیا تھا۔[2]
رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا والدین کی وفات کے بعد مجھ پر کوئی ایسی نیکی کرنا باقی ہے جو میں ان کے ساتھ کر سکوں ؟فرمایا! ہاں وفات کے بعد ان کا جنازہ پڑھنا، ان کے لیے استغفار کرنا، ان کے وعدے کو پورا کرنا، ان کے دوستوں کی عزت کرنا اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا۔[3]
والدین کے ساتھ نیکی کرتے وقت ماں کا حق باپ پر فائق ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک صحابی اپنی ماں کو اٹھائے ہوئے طواف کر رہے تھے۔انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میں نے ان کا حق اداکر دیا؟ آپ
|