Maktaba Wahhabi

66 - 202
ہیں ۔ایک اور ضروری بات کہ بچوں کو پالتے وقت تحمل کی بہت ضرورت ہے۔زیادہ سخت والدین کی اولاد باغی ہو جاتی ہے۔خاص طور پر زیادہ سخت باپ کی اولاد ضرور باغی ہو جاتی ہے۔کیونکہ ماں کی سختی ماں کی محبت کے ساتھ چل جاتی ہے۔ماں اگر تربیت میں سختی کر بھی لے نظم و نسق میں ،صفائی ستھرائی میں تو دوسری طرف وہ اس کو پیار بھی کرلیتی ہے۔اس کو سینے سے بھی لگا لیتی ہے۔بچہ ماں کی محبت کی وجہ سے اسے قبول کرلیتا ہے۔ اس لیے ماں کی سختی چل جاتی ہے۔لیکن باپ کی زیادہ سختی بعض اوقات نقصان دہ بھی ثابت ہو جاتی ہے۔ بچوں کو سنا جائے ایک بات کا خاص دھیان رکھیں کہ بچوں کی بات سنی جائے۔بچہ اپنی بات ضرور سنانا چاہتا ہے۔بچہ سکول سے آتا ہے اس کا دل چاہتا ہے کہ میں اپنی ماں کو ساری باتیں بتاؤں ۔آج مس نے یہ کہا تھا،آج میری فلاں سے لڑائی ہوئی تھی ،میں نے ایسا کہا، اور پھر وہ اس پر ماں باپ سے encouragement بھی لینا چاہتا ہے۔اس کی بات ضرور سنیں ۔ اگر آپ اس کی بات نہیں سن رہیں تو آپ اس کو سمجھائیں گی کیسے؟آپ جتنی بچے کی بات سنتے ہیں اس کے مطابق آپ کو موقع ملتا ہے۔ہاں بیٹا آپ کو ایسے موقع پر ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔آپ نے اس موقع پر ایسا کیا تھا تو یہ اچھی بات نہیں تھی۔آپ ایسا کرتے تو یہ اچھی بات تھی۔مثلاً بچہ بتا رہا ہے کہ آج میری فلاں کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی میں نے اسے مارا اور پھر استاد کو یہ کہا۔آپ اس کی پوری بات سنیں پھر سننے کے بعد اگر آپ سمجھتی ہیں کہ میرے بچے کا کردار وہاں ٹھیک نہیں تھا تو اس کو guide کریں ۔اس کے لیے سننا لازمی ہو گا۔اگر آپ نے سنا نہیں تو اور اوپر سے آپ اپنی بات ٹھونسنا چاہ رہی ہیں تو بچہ بات نہیں سنے گا۔آج کل جو generation gap سامنے آتا ہےاس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ والدین سن نہیں رہے ہوتے۔انہیں اپنے بچوں کے احساسات ،تقاضوں ،رجحانات کا علم نہیں ہوتا۔انہیں پتا ہو کہ بچے کیا چاہ رہے ہیں ،کیسے کام کر رہے ہیں ،ان کے احساسات کیا ہیں ۔لہٰذا بچوں کی بات سنی
Flag Counter