ہے امیر المؤمنین تو نہیں دیکھ رہے لیکن اللہ تو دیکھ رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سب باتیں سن رہے تھے اس گھر پر ایک نشان لگا دیا۔ واپس چلے جاتے ہیں اور اپنے بچوں سے مشورہ کرتے ہیں ۔ ان کے چھوٹے بیٹے عاصم جو ابھی کنوارے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس لڑکی کے لیے پیغام بھیجا۔ یوں نکاح ہوگیا او ران دونوں کو جو اللہ نے اولاد دی ہے وہ ہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز جن کو پانچواں خلیفہ راشد کہا جاتا ہے۔[1]
عقیدہ انسان کے اخلاق پر اس طرح اثر اندازہوتا ہے۔حضرت عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے ساتھ مکہ جارہا تھا۔ ایک چرواہا پہاڑ سے اتر کر ہمارے پاس آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے کہا کہ اے چرواہے ! تو ان بکریوں میں سے ایک بکری میرے ہاتھ بیچ دے۔ چرواہا کہنے لگا میں تو غلام ہوں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُسے کہا کہ تم آقا سے کہہ دینا کہ بکری کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔ چرواہے نے جواب دیا اچھا پھر میں اللہ کو کیا جواب دوں گا وہ تو دیکھ رہا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے او راس غلام کے ساتھ اس آقا کے پاس گئے او راس کو خرید کر آزاد کردیا اور اُسے کہا کہ تمہیں دنیا میں اس بات نے آزاد کردیا او رمجھے اُمید ہے کہ یہی بات تمہیں آخرت کے عذاب سے بھی آزاد کردے گی۔
ان واقعات سے ہماری اپنی تربیت ہورہی ہے۔ یہ تربیت اگر ہمیں بچپن میں ملی ہوتی تو آج ہم ان برے حالا ت میں نہ ہوتے جس میں آج ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر لڑکی کی بات کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ نہ شکل دیکھتے ہیں ، نہ عمر، نہ خاندان ، صرف تقویٰ کی بنا پر بہو بنانے کا فیصلہ کرلیتے ہیں ۔ دوسرے واقعہ میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غلام کے تقویٰ کو دیکھتے ہوئے آزاد کردیا۔اچھے اخلاق کی بنیاد اللہ کا خوف ہے۔
بدزبانی کی عادت :
ایک اور چیز جس سے بچے کو بچانا ہے وہ ہے بدزبانی کی عادت ہے۔ حدیث میں بتایا
|