معاف کر دیتے ہیں اور زیادتی کرنے والوں کے ساتھ احسان سلوک کرتے ہیں ۔‘‘ (آل عمران: 134)
اسی کے ساتھ معاشرے میں اخوت، احسان مندی،محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔جس کو معاف کرتے ہیں اس کے دل سے دعائیں نکلتی ہیں ۔
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمھیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ انسان کو عزت اور شرف عطا فرماتے ہیں اور درجات بلند کرتے ہیں ۔صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو شخص تمھارے ساتھ جہالت کے ساتھ پیش آئے تم اس کے ساتھ بردباری سے پیش آؤ۔ جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کر دو۔ جو تمھیں محروم رکھے تم اسے دو۔ جو تمھارےساتھ قطع رحمی کرے اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔‘‘[1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے بھی ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ دوسروں کو معاف کر دیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کے لیے بدلہ نہ لیا۔ دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے بناتے۔ طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کچھ نہ ہوا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف معاف کیا۔ بلکہ دعا بھی دی۔ مکہ فتح ہونے پر اعلان عام کردیا ۔ لا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ
(5) جرات اور بہادری:
جو شخص جتنا اللہ کے ساتھ جڑ جاتا ہے اتنا ہی طاقت ور ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ساری طاقتیں اللہ کے پاس ہیں ۔ حق و صداقت کا دامن تھامنے سے ہی جرات پیدا ہوتی ہے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تقابل کریں تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نرم دل اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سخت مزاج تھے۔ لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اگر ایمانی جرات دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے قوی ایمان والے تھے۔چنانچہ مختلف مقامات پر ان کی جرات
|