Maktaba Wahhabi

156 - 202
کے سبب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے شخص بھی کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اللہ کی قسم اگر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ایمان کے ساتھ پوری امت کے ایمان کا وزن کیا جائے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایمان بڑھ جائے گا۔ اور اس ایمان نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کووہ جرات دے دی تھی کہ ایسے فیصلے کرتے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی حیران ہو جاتے۔ حضرت ابو بکر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انتہائی جرأت مندانہ موقف اختیار کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر دے کر بھیجا تھا وہ لشکر مدینہ سے باہر 3میل کے فاصلے پر جا چکا تھا جب اس لشکر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی خبر ملی اب وہ لشکر وہیں کھڑا تھا۔ کیونکہ صحابہ کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہر شے سے مقدم تھی۔وہ انتظار کر رہے تھے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحت مند ہو جائیں پھر ہم جائیں ۔ لیکن ہوا یہ کہ 2 ہفتے کی بیماری کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے۔ اکابر صحابہ کا خیال تھا کہ اس لشکر کو نہیں بھیجنا چاہیے کیونکہ مرکزمیں حالات ایسے ہیں کہ فوج کو یہاں موجود ہونا چاہیے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرمانےلگے۔ ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر مجھے معلوم ہو جائے درندے مجھے جھپٹ لیں گے تب بھی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو ضرور بھیجوں گا۔اور جو گرہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے لگائی ہے۔ میں اسے نہیں کھولوں گا۔ اگر بستی میں میرے سوا ایک شخص بھی باقی نہ رہے تب بھی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو نافذ کر کے رہوں گا۔‘‘ایک اور موقف جو انہوں نے اختیار کیا وہ یہ تھا کہ مانعین زکوۃ کے خلاف جنگ کی جائے اس وقت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آپ رضی اللہ عنہ ان کے خلاف کیسے جنگ کریں گے۔ جبکہ وہ لا اله الّااللّٰه کہتے ہیں ۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کہنے لگےکہ’’ اللہ کی قسم !اگر مجھے یہ ایک اونٹنی کا بچہ یا اس کو باندھنے والی رسی جو یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے مجھے نہ دیں میں ان سے اکیلا لڑائی کروں گا۔ بلکہ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ڈانٹا اور کہنے لگے عمر رضی اللہ عنہ !تم جاہلیت میں تو بڑے غیرت مند تھے اور اب مسلمان ہو کر بزدل ہو گئے۔‘‘
Flag Counter