Maktaba Wahhabi

161 - 202
كَرِيْمًا۲۳ وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا﴾ (بنی اسرائیل: 23، 24) ’’تیرے رب نے فیصلہ کیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور والدین کے ساتھ احسانِ سلوک کرنا اگر اُن دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائے اُس کو اُف تک نہ کہو اور اُن کو جھڑکو مت اور اُن دونوں سے احترام سے بات کرو اور اُن دونوں کے لیے عاجزی سے اپنے کندھے جھکا دو جس میں رحمت بھی شامل ہو۔اور اِن کے لیےیہ دُعا بھی کرو کہ اے میرے رب! ان دونوں پر اتنا رحم؍مہربانی کرنا جیسے اِن دونوں نے بچپن میں مجھے پالا تھا۔‘‘ (آمین) تیرے پاس سے مراد ہے کہ ماں باپ جب تمہارے گھر میں ہوں ۔ وہاں اُن کے ساتھ عاجزی سے پیش آنا۔ اُف کہنے سے مراد ہے کہ تنگ پڑ کر اونچی آواز سے بولنا۔انہیں یہ نہ کہیں کہ آپ کو تو سمجھ ہی نہیں آ رہی۔جھڑکنا تو دور کی بات ہے اُف کہنےکی بھی اجازت نہیں ہے۔عزت سے بات کرو سے مراد احترام کرو۔بات چیت میں بھی عزت اور احترام لازم ہے۔ اپنے بازو جھکا دیجیے سے مراد ہے کہ اپنے آپ کو اُن کے سامنے عا جز کر کے پیش کرو۔اولاد کی عاجزی ملازم والی عاجزی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اُس میں رحمت،محبت بھی شامل ہونی چاہیے۔رحمت کی دعا کرتے وقت یاد رہنا چاہیےکہ انہوں نے تم کو پالا تھا۔دعائیں کریں زبان سے عاجزی اور محبت کا اظہار کریں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آۓ اُن کے ساتھ ایک بوڑھے آدمی بھی تھے۔اُنہوں نے اُن سے پوچھا کہ یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہنے لگے میرے والد ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اچھا اِن سے آگے نہ چلنا نہ اِن سے پہلے بیٹھنا نہ اِن کو اِن کا نام لے کر بلانا۔نہ اِن کو برا کہنے کا ذریعہ بننا۔‘‘[1]
Flag Counter