Maktaba Wahhabi

97 - 202
نہیں پڑا البتہ مجھے آپ کی ملاقات کا شرف حاصل ہوگیا۔ میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں کیونکہ جب تک بات بتائی نہ جائے پتہ نہیں چلتا۔ ہشام یہ سن کر کہنے لگا کہ اچھا تم بات بتاؤ تاکہ مجھے پتا چل جائے ، وہ کہنے لگے اے امیر المؤمنین تین سال سے قحط پڑا ہوا ہے۔ ایک سال کی قحط سالی نے ہماری چربی پگھلا دی ، دوسرے سال کی قحط سالی نے گوشت ختم کردیا اور تیسرے سال کی قحط سالی نے ہمارا ہڈیوں کے اندر جو گودا تھا وہ بھی ختم کرڈالا۔ آپ حضرات کے پاس مال ہے اگر یہ مال اللہ کا ہے تو اللہ کے مستحق بندوں پر تقسیم کردیں او راگریہ مال اللہ کے بندوں کا ہے تو پھر آپ لوگوں کو کیوں نہیں دیتے؟ اگر یہ مال آپ کا ذاتی ہے تو اسے صدقہ کردیں کیونکہ اللہ صدقہ کرنے والوں کو بہت ثواب دیتا ہے اور احسان کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ہشام نے کہا اس لڑکے نے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑا او رحکم دیا اس کے گاؤں میں ایک لاکھ درہم تقسیم کردیئے جائیں اور خود دُرداس کےلیے بھی ایک لاکھ درہم دینے کا حکم دیا۔ (کیونکہ اس کو بچے کی بات پسند آئی) تو دُرداس نے کہا امیرالمؤمنین جو مال آپ مجھے دے رہے ہیں وہ بھی میری قوم کو دے دیں کیونکہ مجھے پسند نہیں کہ جو آپ نے اُنہیں دیا ہے وہ ان کے لیے کافی نہ ہو۔ ہشام نے کہا اچھا پھر اپنی ذات کے لیے کیا چاہتے ہو؟ دُرداس کہنے لگے مجھے لوگوں کی حاجت پوری کرنے کے علاوہ اپنی کوئی حاجت نہیں ۔ تو یہ گفتگو 14 سال کا لڑکا کررہا ہے۔ کتنی واضح، مختصر ، سلجھی ہوئی گفتگو ہے۔ اس کا دل پر اثر ہوتا ہے۔ سلف صالحین کا یہ انداز تھا اس دور میں سکول نہیں تھے، والدین اپنے بچوں کی خود تربیت کرتے تھے۔ آج سکول ہیں والدین نے یہ سمجھ لیا ہے کہ سکول سے ہی بچہ سیکھ کے آئے گا۔ بہر حال سکول والوں نے اُس طرح تو احساس نہیں کرنا جس طرح والدین کرسکتے ہیں کیونکہ بچے کےساتھ اُن کا جو تعلق ہے وہ اساتذہ کا طالب علم کے ساتھ نہیں ہے۔ اور آج کل تو تعلیم تجارت بن گئی ہے۔ سکول، کالج چلاناآج کل سب سے بڑا کاروبار ہے ورنہ پہلے استاد
Flag Counter