لکھی نسل پروان چڑھے گی۔شیطان بھی سکھا دیتا ہے کہ لڑکوں نے تو کل کمانا ہے۔ خوراک ، تعلیم ، لباس اچھا چاہیے۔ جبکہ لڑکیوں کی ذمہ داریاں بھی لڑکوں سے کم نہیں ہوتیں ۔ اولاد کو والد سے مال ملے گا اور ماں سے ہڈیاں اور گوشت ۔یہ ہڈیاں ، خون ، گوشت تب ہی ملے گا جب ماں طاقت ور ہو گی۔ اور پھر ماں نے تربیت کرنی ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ ہو گی تو تربیت اچھی کرے گی۔ اللہ ہماری فطرتوں کو ہم سے بہتر جانتا ہے۔ لہٰذا ان عقل مندیوں کی بجائے ایک عقل مندی اختیار لیں وہ ہے وحی کی پیروی۔لہٰذا لڑکے اور لڑکی میں نا انصافی نہ کریں نہ محبت میں نہ کھانے میں نہ لباس میں نہ مال میں نہ تعلیم و تربیت میں نہ ہبہ کرنے میں اور نہ ہی کسی اور معاملے میں ۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے باپ نے اپنے ایک بیٹے کوجو کہ عمریٰ بنت رواحہ سے تھا ایک غلام دیا تھا۔ عمریٰ بنت رواحہ کو فکر یہ تھی کہ کہیں کل کو دوسرے بچے ان سے حصہ مانگیں گے تو انہوں نے اپنے شوہر سے کہا کہ آپ ایسا کریں کہ اس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ ٹھہرا لیں ۔نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے والد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان کو کہا کہ آپ اس پر گواہ بن جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے دوسرے بچوں کو بھی غلام دیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’میں ظلم کا گواہ نہیں بنتا۔‘‘[1] یہ سن کر ان کے والد نے غلام واپس لے لیا کیونکہ وہ باقی بچوں کو غلام نہیں دے سکتے تھے۔ ان کے پاس اتنا مال نہ تھا۔ ہمارے معاشرے میں بے انصافی کی بہت سی قسمیں ہیں ۔ عام طور پر جو بیٹا کاروبار میں شریک ہوتا ہے والد اس کو ہی سارا کاروبار دے دیتا ہے۔ جبکہ باقی بچوں کو اس نےدکان کھول کر نہیں دی۔ ہوتا یہ ہے کہ جب باپ فوت ہو جاتا ہے۔تو بیٹا کہتا ہے کہ یہ تو باپ نے مجھے زندگی میں دے دی تھی تو یہ میری ہوئی جبکہ باقی وراثت میں وہ تمام بہن بھائیوں کے ساتھ شریک ہوتاہے۔جبکہ باپ کو چاہیے کہ وہ clearکرے کہ بیٹا کس حیثیت
|