Maktaba Wahhabi

141 - 202
’’ان کے مالوں میں ایک حصّہ مقرر ہوتا ہے سوالی کے لیے بھی اور محروم کے لیے بھی۔‘‘ (المعارج : 24، 25) ’’دوزخیوں سے جنتی پوچھیں گے کہ تمھیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا؟ تو وہ کہیں گے کہ ہم نماز نہ پڑھتے تھے اور ہم مسکین کو کھانا نہ کھلاتے تھے۔‘‘ اسلام نے اس سلسلہ میں زکوۃ فرض کی اور اس کے بعد صدقات اور خیرات کی اس حد تک ترغیب دلائی کہ وہ شخص مسلمان ہی نہیں ہے جو پیٹ بھر کر رات گزارے اور اس کا پڑوسی بھوکا سوئے۔ کھانا کھلانے کو بہترین نیکی قرار دیا۔ صرف غریبوں کو ہی کھانا نہیں کھلانا بلکہ امیروں کو بھی ، رشتہ داروں ، دوستوں کو بھی کیونکہ اس سے اسلامی معاشرے میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ تنگی اور محتاجی کے وقت اسلام نے بھوکوں اور محتاجوں کی ضرورت پوری کرنے کا حکم دیا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ جس شخص کے پاس دو آمیوں کا کھانا ہے وہ تیسرے آدمی کوا صحاب صفّہ میں سے اپنے ساتھ لے جائے۔ جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہے وہ اپنے ساتھ مزید دو آدمیوں کو لے جائے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود کسی محتاج کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے کوشش کرتے کہ اس کی ضرورت پوری کر دیں ۔ خواہ قرض ہی لینا پڑے اسی طرح اقربا پر بھی زور ڈالا۔ ’’قرابت دار کو اس کا حق دے دو۔‘‘ (بنی اسرائیل: 26) رشتہ دار کی مدد رشتہ داری کی بنا پر کرنی ہے اور غریب اور محتاج کی مدد اس کی محتاجی کی بنا پر کرنی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں بچوں کا وظیفہ مقرر کر دیا تھا۔ ہر بچے کی پیدائش پر سَو درہم ملتے۔ اور بچہ جس طرح بڑا ہوتا جاتا اس کا وظیفہ بھی بڑھتا جاتا۔ اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ یتیم ، مسکین کی کفالت کرے ساتھ ساتھ ، رشتہ دار بھی یہ ذمہ داری اٹھا ئیں تا کہ معاشرے سے غربت ختم ہو۔اسلام نے زکوۃ کا سسٹم یہ رکھا ہے کہ علاقے کے امیر لوگوں سے لے کر غریبوں میں بانٹ دی جائے پھر صدقات پر اللہ نے بے پناہ اجر کا بھی وعدہ
Flag Counter