کیا ہے۔جو کہ سات سو گنا تک ہے۔
’’جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک دانے کی ہے جو کہ سات بالیاں اگاتا ہے اور ہر بالی میں سَو دانےہوتے ہیں اور جس کو اللہ چاہے اس کے صدقے کا ثواب سات سو گنا سے بھی زیادہ دے دے گا۔‘‘ (البقرۃ : 261)
ان احکامات کی وجہ سے لوگوں کی حیرت انگیز تربیت ہو گئی تھی۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اَسی ہزار درہم ملے کیونکہ انہوں نے سب کے وظیفے لگا دیے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی لونڈی سے کہا کہ سارے غریب غربا میں بانٹ آؤ۔ اس دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اور ان کی لونڈی کا روزہ تھا۔ شام تک وہ اَسی ہزار درہم غریبوں میں بانٹ دیے گئے۔ ان کی لونڈی کہنے لگی کہ آپ رضی اللہ عنہ ان میں سے کچھ درہم اپنے روزہ افطار کرنے کے لیے رکھ لیتیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تم نے مجھے یاد دلادیا ہوتا۔
حضرت لیث بن مسعود کی سالانہ آمدنی ستر ہزار دینار سے زیادہ تھی اور وہ یہ ستر ہزار دینار صدقہ کر دیتے۔ یہاں تک کہ ان پر کبھی زکوۃ واجب نہ ہوئی ایک مرتبہ انہوں نے ایک گھر خریدا جب قبضہ لینےوہاں گئے تو یتیموں اور چھوٹے بچوں کو وہاں پایا۔ یہ گھر انہی سے خریدا گیا تھا۔انہوں نے ان سے کہا کہ یہ گھر ہمارے پاس ہی رہنے دیں ۔ یہ بات جب حضرت لیث رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے ان یتیموں اور بچوں سے کہہ دیا کہ یہ گھر تمھارا ہی ہے۔ حالانکہ وہ اس کے پیسے دے چکے تھے۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کا مزید وظیفہ بھی مقرر کر دیا۔ تا کہ ان کی روز مرہ کی ضروریات پوری ہو جائیں ۔
برصغیر میں ہمارے ہاں صدقہ کرنے کا وہ انداز نہیں ہے جو عرب لوگوں میں ہوتا تھا اور آج بھی ہے۔ حج کے موقع پرٹرک کا ٹرک ہی صدقہ کر رہے ہوتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ کوئی غریب ہے یا امیر۔سب کو تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں ۔ ہمارے ہاں وہ رویہ ہی نہیں
|