’’قریب ہے کہ محتاجی کفر بن جائے۔‘‘[1] اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقر اور کفر سے پناہ مانگتے۔ اسلام نے انسانیت کے احترام کی بنیاد امیری / غریبی نہیں رکھی۔ بلکہ تقویٰ کو بنیاد بنایا۔
’’تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے۔‘‘(الحجرات : 13)
کالے کو گورے پر ، گورے کو کالے پر ، عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ۔ فضیلت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’اللہ تمھاری شکلوں کو نہیں دیکھتا، تمھارے جسموں کو نہیں دیکھتا تمھارے دلوں کو اور تمھارے عملوں کو دیکھتا ہے۔‘‘[2]
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر اپنے آگے آگے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے قدموں کی چاپ سنی۔پوچھا بلال! تم کون سا ایسا نیکی کا کام کرتے ہو ؟ جس کی وجہ سے تم جنت میں میرے آگے آگے تھے۔ احادیث میں آتا ہے کہ ان کا رنگ اتنا کالا تھا کہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ پیشانی ختم کہاں ہوتی ہے اور بال شروع کہاں سے ہوتے ہیں ؟
انہی بلال رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سید نابلال کہہ کر بلاتے۔ تو حضرت بلال حبشی ہونے کے باوجود جنت میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے تھےاور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے رعب دار شخصیت کے مالک شخص جو کہ اس وقت امیر المومنین بھی تھے ان کو اے ہمارے سردار بلال کہہ کر پکارتے۔ اسلام انسان کا احترام اس کے تقویٰ اور نیکی کی بنیاد پر کرتا ہے۔ دوسری بات جو اللہ نے اپنے دین میں رکھی ہے کہ جو محتاج ہے اس کی محتاجی کو دور کیا جائے۔اسی لیے زکوٰۃ فرض ہے۔ ایک مسلمان تب تک مومن نہیں ہوتا جب تک وہ زکوٰۃ ادا نہ کرے۔ یہ زکوٰۃ فقرا اور مساکین کو دی جائے گی۔اسلامی نظام میں دولت کا بہاؤ امیر وں سے غریبوں کی طرف ہوتا ہے۔
|