Maktaba Wahhabi

139 - 202
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی اور ساتھ والی کو ملایا۔‘‘[1] ’’جو شخص یتیم کے سر پر محبت اور شفقت کے ساتھ ہاتھ رکھے تو اس کے سر کے نیچے جتنے بال آتے ہیں ہر بال کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں ۔‘‘[2] یہ آیات اور احادیث یتیم کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہیں ۔ اگر یتیم کی کفالت کرنے والا کوئی نہ ہو تو پھر اس کی ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے۔ اسی لیے حضرت عمر نے بچوں کا وظیفہ لگا دیا تھا۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود مدینہ میں جس اسلامی حکومت کے سربراہ تھےاس اسلامی حکومت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا برتاؤ یتیموں کے ساتھ کیا تھا اس کا اندازہ ایک حدیث سے کیجیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے موقع پر ایک یتیم کو دیکھا اس کے ساتھ پیار کا برتاؤ کیا اس کو ساتھ گھر لائے اور اسے کہنے لگے کیا تمھیں یہ بات پسند ہے کہ میں تمھارا باپ اور عائشہ رضی اللہ عنہا تمھاری ماں ہو؟ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہا اس کو اپنے پاس رکھو اس کو کپڑے پہناؤ اور کھلاؤ پلاؤ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود بھی یتیم ہی پیدا ہوئے اس لیئے ان احساسات کا آپکو خوب اندازہ تھا۔ اس لیے خصوصی توجہ دی۔ اس حد تک یتیم کے حقوق کی طرف توجہ دلائی کہ جو شخص یتیم کی کفالت کرے گا اس کو جنت میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب ہو گا۔ ان ساری ہدایات پر عمل کر کے یتیم کے ساتھ بہتر سلوک کیا جا سکتا ہے۔اس کا احساس کمتری دور ہو گا۔ احساس کمتری کی ایک اور وجہ غریبی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ میرے رشتہ دار یا دوست خوب عیش کر رہے ہیں اور میرے لیے کھانا پینا مشکل ہو رہا ہے۔ ان حالات میں بچہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے۔
Flag Counter