Maktaba Wahhabi

138 - 202
اندر احساس کمتری نہیں رہتا۔ زبان سے کسی کو برا بھلا کہنے یا کسی کی تذلیل کرنے سے شریعت بڑی سختی سے روکتی ہے۔ بعض اوقات انسان منہ سے ایک بات نکال دیتا ہے اور اس کی پرواہ بھی نہیں کر رہا ہوتا مگر اس کی وجہ سے جہنم میں اتنا گہرا چلا جاتا ہے جتنافاصلہ مشرق سے مغرب کے درمیان ہے۔[1] ’’انسان جب ایک بھی لفظ منہ سے نکالتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ایک ہوشیار نگران (فرشتہ) تیار رکھا ہوتا ہے۔‘‘ (ق : 18) کراماً کاتبین ایک ایک بات کو نوٹ کرتے ہیں ۔ انسان جو بھی لفظ منہ سے نکالے اس کے فوائد اور نقصانات کا اس کو شعور ہونا چاہیے۔ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے قد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ توایسی ہے اور ایسی ہے۔ ان کا قد چھوٹا تھا۔ تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملایا جائے تو پورے سمندرکو خراب کر دے۔[2] بعض اوقات بچہ یتیم ہونے کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ یتیمی میں انسان کو دو نقصان ہوتے ہیں ۔پہلا محبت کی کمی۔ یوں بچے کاپیار اور محبت سے بھرا ایک خزانہ گم ہو جاتا ہے۔ دوسرے مال کی کمی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت کی کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ یتیم کو نہ ڈانٹیے۔ ’’کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو قیامت کو جھٹلاتا ہے یہی وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔‘‘ (الماعون : 1، 2) اسلامی معاشرے میں یتیم کے ساتھ پیار اور محبت کا رویہ رکھنا چاہیے۔ ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔اور پھر
Flag Counter