Maktaba Wahhabi

64 - 545
کے اندر کام کرنا ہوتا ہے۔اس لیے ان میں سے بعض تو اپنے تمام معاہدوں میں شریعت کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہوئے۔اس لیےان میں طے پانے واے ہرہرمعاہدے اورمعاملے کو شریعت کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔“ [1] سوال یہ ہے کہ اگران معاملات اور معاہدوں کو شریعت کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا چہ جائیکہ وہ خالص اسلامی ہوں تو پھر ان پر مبنی بینکاری نظام کا نام اسلامی بینکاری کیسے قرارپائے۔؟ تیسری بات یہ ہے کہ اسلامی بینکوں اور مالیاتی اداروں کو عموماً متعلقہ ملکوں کی حکومتوں،ٹیکسوں اور قانون کے نظام اور مرکزی بینکوں کا تعاون حاصل نہیں ہوتا ایسی صورتحال میں انہیں حاجت یا ضرورت کی بنیاد پر بعض خاص رعایتیں اور رخصتیں دی جاتی ہیں جو شریعت کے اصل اور مثالی قواعد پر مبنی نہیں ہوتیں۔“[2] اولاً تو ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں کہ اضطراری حالت میں بھی سود کی گنجائش اسلام میں نہیں ہے۔جیسا کہ قرآن حکیم کی آیات سے واضح کیاجاچکاہے۔ ثانیاً یہ رعایتیں اور رخصتیں دینے کا اختیار،مؤلف موصوف کو کس نے دیا؟موصوف احکامِ شریعت کے شارح ہیں یا شارع یعنی اہل علم کا منصب شریعت کی وضاحت اور بیان ہے یا شریعت سازی۔اس نوعیت کے مادرپدرآزاد اجتہاد کی اسلام میں تو قطعاً گنجائش نہیں ہے۔یہ ملاازم اور پاپائیت تو ہوسکتے ہیں اسلام نہیں ہے۔ آگے چل کر لکھتے ہیں: ”ان(رخصتوں) کا بڑا مقصد نسبتاً کم قابل ترجیح راہِ عمل اختیار کرکے کھلم کھلا حرام سے
Flag Counter