Maktaba Wahhabi

62 - 545
کردیا تھا۔ صرف سود کی حد تک نہیں بلکہ پورے اسلامی نظامِ زندگی کی بنیادیں ہلادیں تھیں،اور اسلامی نظام زندگی ایک زندہ جاوید اور قابل عمل دستور حیات کی حیثیت سے روبعمل ہوگیا تھا،پھر ایک مدت بعد اسلامی ثقافت پر حملوں کا آغاز ہوا تو اسلام کے مالی نظام کو بھی دیگر احکام کی طرح نشانہ بنایاگیا جس کی مشق تاحال جاری ہے کہ یہ نظام تعمیر وترقی اور عالمی صنعتی دوڑ میں ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہے۔یہ صرف مخصوص حالات میں قابل عمل تھا،احوالِ زمانہ کا ساتھ نہیں دے سکتا،تجارتی وصنعتی مسابقت کے جدید دور میں جدید مالی نظام کو اپنائے بغیر زندگی کا پہیہ حرکت نہیں کرسکتا وغیرہ وغیرہ مالی مصارف کا یہ سودی نظام قدیم زمانے میں بابلی اور یونانی ماہرین نے متعارف کرایاتھا،قرونِ وسطیٰ کے آخرمیں جدید صنعتی انقلاب سے قبل یورپ میں اس نے رواج پکڑا،پھر بالخصوص اٹلی کے راستے یورپ اور سرمایہ دارانہ راج کے حامل ممالک میں پھیل گیا،خاص طورپر اٹھارویں صدی کے آخر میں تمام آسمانی تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہوئے بینکنگ کا نیا نظام صنعتی ضرورت قراردیکر اقتصادی ترقی کا لازمی حصہ بنادیا گیا۔اب دنیا اس نظام میں اس حد تک جکڑ دی گئی ہے کہ اسے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس کے بغیر گزارا ممکن ہی نظر نہیں آتا۔ درحقیقت یہ ایک استحصالی نظام ہے جس کے ذریعے دنیا کی چند بڑی قوتیں مام مالی وسائل پر قابض ہوچکی ہیں۔سرمایہ دارانہ مالی نظام کی اساس فرد کی غیر محدود اور جائز وناجائز کی تفریق کے بغیر ذاتی ملکیت ہے،اور اس کا ذریعہ یہ سودی نظام ہے۔یہ نظام غریب کی ضرورت کبھی نہیں رہا اور نہ کبھی اس نظام نے کسی محتاج طبقے کو کوئی سہولت فراہم کی ہے۔ہمارے ماحول میں غور کرکے دیکھ لیں یہ فقراء ومساکین اور ضرورت مندوں کی ضروریات کا کفیل نہیں بلکہ مل مالکان،کارخانہ داران اور قومی سطح پر استحصالی طبقے کی ضرورت ہے،جو ملک کی تمام دولت پر قابض ہونا چاہتے ہیں،اور غریب کے منہ سے نوالہ بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔
Flag Counter