Maktaba Wahhabi

56 - 545
کوئی متبادل نہیں ہے،یایہ کہ علماء کرام اس کا کوئی قابل قبول حل پیش کر نے سے قاصر ہیں، اس دعویٰ کے بے بنیاد ہونے کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ ایک طویل مدت تک خلافت اسلامیہ اور پھر صدیوں تک مسلم ریاستیں دنیا بھر میں سودی نظام کے بغیر اپنا اقتصادی نظام پوری کامیابی کے ساتھ چلاتی رہی ہیں اور انہیں کبھی کسی مالی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا،نہ امانتوں کی حفاظت کے سلسلے میں، نہ گردش دولت اور باہمی لین دین میں اور نہ بیع و تجارت اور صنعتی میدان مین، اور ہر زمانے میں یہ تمام مالیاتی سلسلے کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ جاری رہے ہیں۔ بالخصوص خلافت اسلامیہ کے عروج کے زمانے میں جب مسلمان پوری دنیا کی ہر میدان میں قیادت و سیادت کر رہے تھے، اس وقت بھی اسلامی اقتصادیات پر عمل پیرا تھے، نہ کہیں سود تھا، نہ جوااور نہ استحصال اور استغلال ، اور اسلامی حکومت کے قلم روکا دائرہ بھی کئی برا عظموں کو محیط تھا، نہ صرف یہ کہ یہ نظم پوری کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا بلکہ ایسی مثالی فراوانی تھی جو آج کی ترقی یافتہ قوموں کو بھی میسر نہیں ہے، اور یہ سب برکتیں تھیں زمانہ جاہلیت کے سودی نظام کو مسترد کرنے اور اسلامی معاشرے کو اس سے کلی طور پر پاک کرنے کی۔فرمایا۔ ﴿يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ[1] ”اللہ سود کو مٹاتا اور صدقوں کو بڑھاتا ہے۔“ فقراءمساکین اور بے سہارا محتاجوں کے لیے انشورنس اور تکافل کے نام پر قمار اور جوئےکے جواز کے لیے حیلہ سازیوں کی بجائے اسلامی بیت المال اور زکوٰۃ کا نظام کیوں متعارف نہیں کرایا جاتا۔؟حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر اسے قائم رکھنے کے لیے جنگ لڑنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
Flag Counter